مہنگائی: ’سوچا بھی نہیں تھا کہ حالات ایسے ہو جائیں گے‘

بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کراچی کی ایک گھریلو ملازمہ انصر مائی کی زندگی کے معمولات کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کے لیے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

انصر مائی کراچی کے پوش علاقوں میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کے معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔

انصر مائی جب اپنے علاقے سے کام پر جانے کے لیے نکلتی ہیں تو رکشے والوں سے کرائے کے معاملے پر بحث روز کا معمول بن چکا ہے۔

ایسے ہی مکالمے کو خبر رساں ادارے روئٹرز نے عکس بند کیا جس میں انصر مائی رکشے والے سے 300 روپے کرایہ مانگنے پر بات کر رہی ہیں۔

انصر مائی رکشے والے کو کہتی ہیں کہ ’پہلے تو 200 روپے کرایہ ہوتا تھا، اچانک ایسا کیا ہو گیا؟‘

رکشے والا پیٹرول کی نئی قیمت 210 روپے فی لیٹر کا حوالہ دے کر 300 روپے کرایہ لینے پر ہی اصرار کرتا ہے لیکن تھوڑی سی بحث کے بعد 250 روپے پر کرایہ طے ہو جاتا ہے۔

انصر مائی ایک بیوہ ہیں اور انہوں نے شوہر کی وفات کے بعد سلائی کا کاروبار کرنے کے لیے بینک سے قرضہ لیا تھا۔

کاروبار تو نہ چل سکا لیکن قرضے کی مد میں ماہانہ 10 ہزار روپے قسط بینک میں جمع کروانی پڑتی ہے۔

ان کا مکان بھی کرائے کا ہے جس کا کرایہ، بجلی کا بل اور اپنے بھائی کے خاندان کی ماہانہ مدد کے بعد ان کے اپنے پاس پورا مہینہ گزارنے کے لیے چھ سے سات ہزار روپے ہی بجتے ہیں۔

انصر مائی کہتی ہیں کہ ’میرے بچے کبھی نمک مرچ یا اچار سے ہی روٹی کھا لیتے ہیں۔ ترستے ہی رہتے ہیں کہ کوئی اچھا کھانا مل جائے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے حالات ایسے ہو جائیں گے۔‘

دن بھر کام کاج کے بعد گھر لوٹتے ہوئے مہنگائی اور بچے دونوں انصر مائی کے منتظر ہوتے ہیں۔

گھر جاتے ہوئے انصر مائی گھی لینے کے لیے ایک دکان پر رکیں تو انہیں پتہ چلا کہ اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔

گھی کا پیکٹ ہاتھ میں تھامے ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے میں 150 روپے کا خریدتی تھی۔ اب یہ 250 کا ہو گیا ہے۔ غریب بندہ کرے تو کرے کیا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان