’پروفیسر نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میں نے سننے میں مشکل کا بتایا اور انہیں ایک لیٹر دیا تو انہوں نے مجھ سے سوالات پوچھنے شروع کیے۔‘
’انہوں نے کہا کہ بتاؤ کس فیملی سے تعلق ہے، والد کیا کرتے ہیں۔ اس طرح میرے حوالے سے پوچھا اور بعد میں کہا کہ آپ جھوٹ بولتی ہیں۔ آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ آلہ سماعت نہیں بلکہ ہینڈز فری ہے۔ اس لیے میں آپ کو فیل کرتا ہوں۔‘
یہ کہانی ہے ڈاکٹر مہوش شریف کی جو اس وقت بلوچستان کے فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال کوئٹہ میں بطور میڈیکل آفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
مہوش ایک نارمل بچی تھی اور چار سال کی عمر تک انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ پھر ایک دن اچانک بخار ہوا جو علاج سے ٹھیک تو ہو گیا مگر اس کی وجہ سے وہ سننے کی صلاحیت سے محروم ہو گئیں۔
’شروع میں مجھے اتنا مسئلہ نہیں ہوا۔ مجھے والدین نے عام بچوں والے سکول میں داخل کرایا جہاں میں پڑھتی تھی، لیکن استانی مجھے دوسرے بچوں کی طرح نہیں دیکھتی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں: ’جب میں چھوٹی تھی تو زیادہ محسوس نہیں ہوا لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ میرے سکول کی ٹیچر روزانہ والدین سے شکایت کرتیں کہ آپ کی بچی سنتی نہیں ہے۔ اس کو یہ مسئلہ ہے وہ مسئلہ ہے۔ اس طرح وہ میرے والدین کو بہانے سے تنگ کیا کرتے تھے۔‘
’میں جب سکول سے آتی تو والدین کو کہتی تھی کہ اب میں نہیں پڑھ سکتی تو وہ میری ہمت بڑھاتے اور ایک نئی امید دے کر اگلے روز دوبارہ سکول بھیجتے تھے۔‘
مہوش کہتی ہیں: ’اس رویے نے مجھے سوشل انزائٹی کا شکار کردیا اور باہر جانے سے کتراتی تھی۔ جب کبھی والدہ کہتیں کہ آج یہ چیز لانی ہے تو میں بالکل باہر نہیں جاتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مجھے دکاندار سے بات کرنے میں دقت ہوتی تھی اور میں انزائٹی کا شکار ہوتی گئی۔‘
مہوش کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کے رویے کو دیکھتی تو شاید وہ کبھی کچھ بھی نہ بن پاتی لیکن والدین نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔
’میں آج جو کچھ بھی ہوں انہی کی بدولت ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے بولان میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ٹیسٹ دیا تو انہیں کوٹے اور میرٹ سیٹ دونوں ہی پر کامیابی ہوئی اور پھر انہوں نے میرٹ والی سیٹ لے کر مخصوص کوٹہ نشست چھوڑ دی تاکہ کسی اور کے کام آسکے۔
’جب میں نے یہ قدم اٹھایا تو مجھے پہلے سے زیادہ مشکلات کا سامنا رہا۔ مجھے لیکچر سننے میں مشکلات اور سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں مصائب کا سامنا رہا۔‘
مہوش کہتی ہیں کہ جب وہ یونیورسٹی کے پروفیسرز سے کہتی تھیں کہ انہیں لیکچر سمجھ نہیں آ رہا ہے، تو وہ لکھ کر دینے کے بجائے انہیں ’ٹارچر‘ کرتے تھے۔
’مجھے جواب ملتا کہ میں اس شعبے کے لیے نہیں بنی ہوں۔ اس طرح وہ میرا مذاق بھی اڑاتے تھے۔‘
مہوش نے بتایا: ’سب سے برا سلوک اس وقت ہوا جب میرا فائنل ایئر چل رہا تھا، اور میرا وائیوا تھا۔ میں پروفیسر کے پاس گئی، انہوں نے پوچھا کہ کیا ہے۔ میں نے انہیں خط دیا اور بتایا کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔‘
’پروفیسر نے مجھے اپنا تعارف کروانے کا کہا۔ پھر کہا کہ فیملی کے بارے میں بتاؤ، اس طرح انہوں نے بہت سے سوالات کے بعد کہا کہ آپ جھوٹ بولتی ہیں۔ آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ آلہ سماعت نہیں ہینڈز فری ہے۔ اس لیے میں آپ کو فیل کرتا ہوں۔‘
مہوش کہتی ہیں: ’اس وقت مجھے لگا کہ میرا سب کچھ ختم ہوگیا اور میں اب کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی ہوں، لیکن اس وقت بھی میرے والدین نے میرا ساتھ دیا اور ہمت دی حوصلہ دیا۔ میں نے دوبارہ کوشش جاری رکھی۔‘
’اس کے بعد میں نے نہ صرف اپنا ایم بی بی ایس پاس کیا اور ایک ساتھ ہاؤس جاب کی وہ بھی دل کے امراض کے وارڈ میں جہاں ہر وقت ایک ایمرجنسی کی کیفیت رہتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں: ’مجھے دوران کام اس وقت مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب کسی مریض کا معائنہ کرنے کے لیے آلہ سماعت نکالنا پڑتا ہے اور سٹیتھسکوپ بھی لگانا پڑتا تھا۔‘
مہوش نے میٹرک کوئٹہ کے ہیلپر سکول سے 2008 میں کیا اور پھر ایف ایس سی اسلامیہ گرلز کالج سے 2011 میں پاس کیا۔ انہوں نے ایم بی بی ایس 2017 میں کیا اور کمیشن کا امتحان 2021 میں پاس کرکے لیڈی میڈیکل آفیسر بنیں۔
مہوش بتاتی ہیں: ’جب میں نے دیکھا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیڈی میڈیکل آفیسر کی آسامیاں آئیں تو میں نے اپلائی کر دیا اور اس میں کامیابی حاصل کرکے آج میں فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہوں۔‘