یہ 1996 کی بات ہے جب سابق شاہی ریاست بالاسنور کے آخری نواب محمد صلابت خان بابی کی صاحب زادی عالیہ سلطانہ بابی نے انگریزی ادب کی پڑھائی کے بعد ’دا گارڈن پیلس ہیریٹیج ہوٹل‘ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنبھالی۔
بالاسنور میں سرسبز جنگلات اور باغات کے درمیان واقع یہ ہوٹل بابی خاندان کا شاہی محل تھا جسے 1883 میں نواب محمد منور خانجی بابی نے تعمیر کرایا تھا۔
پھر جب آخری نواب محمد صلابت خان بابی اور ان کی اہلیہ بیگم فرحت سلطانہ کو محسوس ہوا کہ اس جگہ کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے اسے ہیریٹیج ہوٹل میں تبدیل کر دیا۔
ایک دن اسی ہوٹل میں قیام پذیر سیاحوں کے ایک گروپ کے ساتھ بالاسنور سے کم و بیش 13 کلو میٹر دور رایولی نامی گاؤں کی سیر پر جانا نواب زادی عالیہ سلطانہ بابی کے لیے ایک ایسا سفر ثابت ہوا جس نے انہیں لاکھوں سال پہلے روئے زمین پر بے خوف و خطر پھرنے والے ڈائنوساروں کی باقیات کا محافظ بنا دیا۔
رایولی کا سفر
عالیہ سلطانہ بابی نے انڈپینڈنٹ اردو سے طویل گفتگو میں کہا کہ 1980 کی دہائی میں رایولی، جو ایک پہاڑی علاقہ ہے، میں ڈائنوساروں کی ہڈیاں اور انڈے دریافت ہوئے تھے جن کے بارے میں 1996 میں میری معلومات صفر کے برابر تھی۔
’میری ہندوستان میں پائے جانے والے ڈائنوساروں سے لگاؤ کی کہانی رایولی گاؤں کے ایک سفر سے شروع ہوتی ہے۔ دراصل ہمارے ہیریٹیج ہوٹل میں کچھ غیر ملکی سیاح قیام پذیر تھے۔ انہوں نے رایولی جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا تو میں بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔
’رایولی میں وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہاں کس نسل کے ڈائنوساروں کی باقیات ملے تھے۔ میرے پاس تو اس سے متعلق کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی اور خود سے باتیں کرنے لگی کہ ایسے نہیں چلے گا۔
’میں سوچ میں پڑ گئی کہ سیاح دور دور سے یہاں ڈائنوساروں کی باقیات دیکھنے آتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ اس زمین سے وابستگی کے باوجود کچھ نہیں جانتے۔‘
عالیہ سلطانہ کہتی ہیں کہ انہوں نے رایولی میں ہی تہیہ کر لیا تھا کہ وہ نہ صرف یہاں دریافت ہونے والے ڈائنوساروں کی باقیات پر تحقیق کریں گی بلکہ اس جگہ کا تحفظ یقینی بنانے کا کام بھی اپنے ذمہ لیں گی۔
’میں نے تحقیق شروع کی۔ جو ملکی اور غیر ملکی محققین اور سائنسداں ڈائنوسار کی باقیات کی کھوج میں یہاں آئے تھے میں نے ان سے فون، خطوط اور ای میل کے ذریعے ترسیل شروع کی اور معلومات اکٹھا کرنے لگی۔
’میرے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیوں کہ میں انگلش لٹریچر پڑھ کر آئی تھی۔ ڈائنوساروں کی باقیات پر تحقیق ایک الگ سبجیکٹ تھا۔
’تحقیق کرنے پر مجھے پتہ چلا کہ 1980 کی دہائی میں جیولوجیکل سروے آف انڈیا سے دو نقشہ ساز ایک منظم نقشہ سازی کے مشن پر یہاں آئے تھے۔ اس دوران ان کی نظر ظاہراً چونے سے بنی گول گول گیندوں پر پڑی۔
’ان نقشہ سازوں نے جب مقامی لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں جانتے یہ کیا چیز ہے۔ انہوں نے ان میں سے ایک گیند احمدآباد کی فزیکل ریسرچ لیبارٹری بھیجی جہاں بھارت کے سرکردہ ماہر حیاتیات ڈاکٹر اشوک ساہنی نے دیکھتے ہی کہا یہ کوئی پتھر نہیں بلکہ ڈائنوسار کا انڈہ ہے۔
’اس کے بعد جیولوجیکل سروے آف انڈیا سے ماہرین کی ایک ٹیم یہاں آئی جس کو یہاں کھدائی کے دوران ڈائنوساروں کی 400 ہڈیاں اور بڑی تعداد میں انڈے ملے، جو دونوں سبزی خور اور گوشت خور ڈائنوساروں کے تھے۔
’دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جگہ پر ڈائنوساروں کے انڈے اتنی بڑی تعداد میں موجود تھے کہ بے خبری میں ان کا استعمال باغ کا راستہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گاؤں والے چونے کی یہ گول گول گیندیں یہ کہہ کر میرے والد مرحوم کو پیش کرتے تھے کہ نواب صاحب یہ آپ کے توپ کے گولے ہیں۔
’میرے والد یہ کہہ کر لینے سے انکار کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس توپیں نہیں ہیں لہٰذا یہ کسی کام کے نہیں۔ اگر میرے والد نے یہ تحفے قبول کیے ہوتے تو میرے پاس آج ڈائنوساروں کے نہ جانے کتنے انڈے ہوتے۔‘
عالیہ سلطانہ بابی کی جدوجہد اور تحقیق
عالیہ سلطانہ نے رایولی میں نہ صرف ’ڈائنوسار فوسل پارک اور میوزیم‘ کے قیام میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے بلکہ وہ گزشتہ 27 برسوں سے مسلسل اس جگہ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئی ہیں۔
’اب مجھے اس ڈائنوسار سائٹ سے جڑے 27 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جس ہیریٹیج ہوٹل سے میرے اس سفر کی کہانی شروع ہوئی تھی اس کا انتظام و انصرام اب میرے بھائی نواب سلطان صلاح الدین خان بابی اور ان کی اہلیہ زیبہ بیگم سنبھالے ہوئے ہیں۔
’میں نے گزشتہ 27 برسوں کے دوران نہ صرف کافی تحقیق کی بلکہ اس جگہ کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بہت جدوجہد بھی کی۔
’رایولی میں ڈائنوسار کی باقیات کھوج نکالنے والے ماہرین اپنا کام کر کے چلے گئے تھے۔ حفاظتی انتظامات کی عدم موجودگی کے سبب اس جگہ پر ملنے والے ڈائنوساروں کی باقیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا تھا۔
’جب 1996 میں میرا اس جگہ سے آمنا سامنا ہوا تو سب سے پہلے جو بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ اس جگہ میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بننے کی صلاحیت ہے۔ میں نے مختلف سرکاری محکموں کو خطوط لکھے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کا سہارا لیا۔
’میں کروسیڈر کا کردار ادا کرنے لگی۔ میں نے اس جگہ کی اہمیت اور اسے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت اجاگر کی۔ میری جدوجہد کو دیکھ کر میڈیا اور ڈائنوساروں میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے مجھے پرنسس ڈائنوسار اور ڈاکٹر ڈائنوسار کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواب زادی عالیہ سلطانہ کا کہنا ہے کہ ان کی جدوجہد 2019 میں اُس وقت رنگ لائی جب حکومت نے رایولی میں بھارت کے پہلے اور دنیا کے تیسرے بڑے ’ڈائنوسار فوسل پارک اور میوزیم‘ کا قیام عمل میں لایا۔
’مجھے اس کے قیام کے لیے تین محکموں سیاحت، جنگلات اور جیولاجیکل سروے کے ساتھ ایک بڑی مدت تک کام کرنا پڑا۔ ابتدا میں ہم نے محکمہ جنگلات کی مدد سے تقریباً 72 ہیکٹرز کے رقبے کو چاروں اطراف سے بند کروایا تھا۔
’72 ہیکٹرز پر پھیلے ڈائنوسار فوسل پارک اور میوزیم میں آپ کو ڈائنوساروں کی ہڈیاں اور انڈے قدرتی شکل میں دیکھنے کو ملیں گے۔ میوزیم میں زمین، ڈائنوساروں اور انسانوں کی ارتقا اور سفر پر تصویری گیلریاں موجود ہیں۔
’جو میرے پاس انڈوں اور دیگر باقیات کا کلیکشن تھا میں نے وہ اس میوزیم کو عطیہ کیا ہے۔ ایک مقامی باشندے اور جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی ڈائنوساروں کے باقیات اس میوزیم کو عطیہ کیے۔ اس جگہ پر کام کرنے والے سبھی لوگ رایولی کے مقامی باشندے ہیں۔ یعنی یہ جگہ مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔‘
عالیہ سلطانہ بھارتی ریاست گجرات کے محکمہ سیاحت کی سیاحتی کمیٹی کی واحد غیر سرکاری رکن ہیں جنہیں یہ اعزاز رایولی میں ڈائنوساروں کی باقیات کے تحفظ اور اس جگہ کو فروغ دینے پر حاصل ہوا ہے۔
’میں پچھلے 27 برسوں سے رایولی کے ٹورز منعقد کراتی آئی ہوں۔ میں سیاحوں کو وہاں موجود انڈوں اور باقیات پر بریف کرتی ہوں۔ کسی ہڈی کے پاس لے جاتی ہوں تو ان کو بتاتی ہوں کہ یہ ڈائنوسار کے جسم کے کس حصے کی ہڈی ہے۔‘
نواب زادی عالیہ سلطانہ کا کہنا ہے کہ رایولی کو پوری دنیا میں ایک امتیاز حاصل ہے کیوں کہ یہ جگہ نہ صرف ہیچری بلکہ قبرستان بھی ہے۔
’یہاں ڈائنوسار کے انڈے اور ان کی باقیات پائے گئے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ڈائنوساروں نے صرف جنم نہیں لیا ہے بلکہ مر بھی گئے ہیں۔ یہ ایکس این پرووینس فرانس اور منگولیا کے بعد دنیا کی تیسری بڑی ہیچری مانی جاتی ہے اور یہاں اب تک ڈائنوساروں کے دس ہزار کے قریب انڈے دریافت ہوئے ہیں۔‘
عالیہ سلطانہ نے اپنی تحقیق میں پایا ہے کہ رایولی میں جو ڈائنوسار پائے جاتے تھے وہ باقی دنیا کے ڈائنوساروں سے مختلف ہیں اور اپنی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے راجاسورس نارماڈینسس اور رایولی سورس گجرات ٹینسس کہلائے ہیں۔
’مجھے پہلے لگا تھا کہ جو باقی دنیا میں ڈائنوسار پائے گئے تھے وہی یہاں بھی رہتے ہوں گے جیسے کہ ٹی ریکس۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت میں ٹی ریکس کبھی پایا ہی نہیں گیا ہے۔
’لیکن ٹی ریکس سے کافی ملتا جلتا ڈائنوسار تھا جس کو ہم آج کی تاریخ میں ٹی ریکس کا انڈین کزن کہتے ہیں جس کا بھارتی نام راجاسورس نارماڈینسس ہے۔ اس کی باقیات بالاسنور اور تھوڑے بہت مدھیہ پردیش میں بھی پائے گئے تھے۔
’راجاسورس نارماڈینسس ٹی ریکس جتنا ہی سفاک تھا۔ اس کا نام راجا اس لیے پڑا کیوں کہ اس کے سر کے اوپر ایک سینگ تھا جو تاج جیسا نظر آتا تھا۔ نارماڈینسس اس لیے کیوں کہ اس کی بیشتر باقیات نرمدا ندی گھاٹی کے کنارے پائی گئی تھیں۔
’یہاں ایک اور ڈائنوسار پایا جاتا تھا جو راجاسورس سے تھوڑا چھوٹا لیکن گوشت خور ہی تھا۔ اس کا نام رایولی سورس گجرات ٹینسس ہے اور اس کی باقیات صرف بالاسنور میں رایولی سے ملے تھے۔ ان ڈائنوساروں کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا ہے۔‘
عالیہ سلطانہ کہتی ہیں کہ پورے بھارت میں اب تک 30 سے زیادہ اقسام کے ڈائنوساروں کی باقیات پائے گئے ہیں جن کے بھارتی نام ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو ان کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے۔‘
’حالاں کہ میری ڈائنوساروں میں دلچسپی بچپن سے ہی رہی ہے لیکن میں بھی بھارت میں پائی جانے والی اقسام سے ناواقف تھی ۔ 1978 میں جب میری عمر چار سال تھی میرے والدین نے میرے لیے ایک انگریزی استاد کی خدمات حاصل کی تھیں۔
’میں اے فار ایپل، بی فار باؤائے، سی فار کیٹ اور ڈی فار ڈاگ کی جگہ ڈی فار ڈائنوسار پڑھتی تھی۔ پانچ سال کی عمر میں ہی مجھے برونٹوسورس اور ڈپلوڈکس، جو کبھی بھارت میں پائے ہی نہیں گئے، کی سپیلنگ آتی تھی۔
’مجھ سے میرے کچھ عزیز اور رشتہ دار کہتے ہیں کہ شاید تمہاری کسی جنم میں ڈائنوساروں سے کوئی ناطہ رہا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھارت میں پائے جانے والے ڈائنوساروں سے دنیا کو واقف کرانے کا کام کر رہی ہوں۔ وہ ڈائنوسار جن سے میں خود ناوقف تھی۔‘
اپنے خاندان کے بارے میں
نواب زادی عالیہ سلطانہ کہتی ہیں کہ ان کے آبا و اجداد آج سے تقریباً پانچ سو سال قبل مغل شہنشاہ ہمایوں کے ساتھ افغانستان سے ہندوستان آئے تھے۔
’آگرہ میں قیام کے دوران وہ مغلوں کی فوجی خدمات پر مامور ہوئے۔ ایک دن میرے خاندان کے کسی فرد نے بڑی بلی کے شکار کے دوران شہنشاہ اکبر کی جان بچائی جس کے بعد وہ ہمارے خاندان کے شفیق ہو گئے۔
’پھر ایک وقت وہ آیا جب سلطنتِ مغلیہ نے بابی خاندان کے تین بھائیوں کو تین مختلف ریاستوں جوناگڑھ، بالاسنور اور رادھن پور کا نواب بنا کر بھیجا۔ سب سے چھوٹے بھائی کو جوناگڑھ، سب سے بڑے کو بالاسنور اور جو بیچ والے تھے ان کو رادھن پور ملا تھا۔
’میرے والد نواب محمد صلابت خان بابی بالاسنور کے آخری نواب تھے۔ 1944 میں جب ان کی عمر صرف نو ماہ تھی اُن کے والد نواب جمعیت خانجی کا انتقال ہوا۔ صرف گیارہ ماہ کی عمر میں ہی میرے والد کو ریاست کا نواب بنایا گیا تھا۔
’چوں کہ میرے والد کا اس عمر میں ریاست کے انتظامات چلانا ناممکن تھا لہٰذا ایک راجپوت بادشاہ کو اُن کا سرپرست بنایا گیا اور ایک برٹش ریجنٹ کو وہاں تعینات کیا گیا تھا۔ جب 1947 میں ہندوستان کو آزادی ملی تو قریب دس ماہ بعد ہماری ریاست نے بھارت کے ساتھ انضمام کیا۔
’میرے والد اُس وقت بھی کمسن تھے لہٰذا انہوں نے انضمام کے کاغذات پر دستخط نہیں کیے۔ اُن کی عمر تب تین سال اور کچھ ماہ تھی۔ میرے والد کی طرف سے ان کے راجپوت سرپرست نے ہی انضمام کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔‘