پاکستان اور بھارت کے کرکٹ تعلقات کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دونوں ٹیموں نے انہی وجوہات کی بنا پر 2007 کے بعد سے باہمی ٹیسٹ سیریز نہیں کھیلی اور صرف آئی سی سی یا اے سی سی ایونٹس میں ہی مدمقابل آئی ہیں۔
ان حالات میں جب دنیا کی مہنگی ترین سپورٹس لیگز میں سے ایک آئی پی ایل کے دروازے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے بند ہیں تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ بابر اعظم، وراٹ کوہلی، شاہین شاہ آفریدی اور جسپریت بمراہ ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوں؟
ایسا ممکن ہے کیوں کہ ایشین کرکٹ کونسل آئندہ سال ایفرو ایشیا کپ بحال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ماضی میں یہ ایونٹ 2005 اور 2007 میں کھیلا جا چکا ہے لیکن پھر نشریات اور سیاسی مسائل کی وجہ سے التوا کا شکار ہو گیا۔
فوربز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ کی گورننگ باڈی کے سربراہ جے شاہ کی قیادت میں ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کی جانب سے اس ایونٹ کو ری برینڈ کیا جا رہا ہے۔
2000 کی دہائی کے وسط میں ایشین الیون میں شعیب اختر، شاہد آفریدی اور دیگر پاکستانی کھلاڑیوں نے وریندر سہواگ اور راہول ڈریوڈ سمیت بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ روم شیئر کیا تھا جب کہ افریقی الیون جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا کے سٹار کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔
ایفرو ایشیا کپ کا ٹی 20 فارمیٹ میں کھیلا جانے والا اپ ڈیٹ ورژن اگلے سال جون جولائی کے لیے مختص کیا گیا ہے جس پر اپریل میں آئی سی سی بورڈ میٹنگ میں جے شاہ، افریقی کرکٹ ایسوسی ایشن کے نئے چیئرمین سومود دامودر اور اے سی سی کے ڈویلپمنٹ کمیٹی کے چیئرمین مہندا والی پورم کے درمیان بات چیت کی گئی ہے۔
مزید بات چیت اگلے ماہ آئی سی سی کی سالانہ جنرل میٹنگ کے موقع ہر ہو گی جہاں ایفرو ایشیا کپ، خواتین، ایسوسی ایٹس ٹیموں اور جونیئر کرکٹ کو ترقی دینے کے لیے ایشین کرکٹ کونسل کے متعدد اقدامات کی باضابطہ توثیق کا امکان ہے اور ممکنہ طور پر میزبان ملک کا تعین بھی کیا جائے گا۔
اے سی سی کے کمرشل اینڈ ایونٹس کے سربراہ پربھاکرن تھانراج نے فوربز کو بتایا: ’ہمیں ابھی تک دونوں (پاکستان اور بھارتی) بورڈز سے تصدیق نہیں ملی ہے۔ ہم ابھی بھی وائٹ پیپر پر کام کر رہے ہیں، جسے دونوں بورڈز کو پیش کیا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے بہترین کھلاڑی ایشین الیون میں کھیلیں۔ منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے بعد ہم سپانسرشپ اور براڈکاسٹر کے لیے مارکیٹ میں جائیں گے۔ یہ ایک بہت بڑا ایونٹ ہوگا۔‘
اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو یہ بھارت اور پاکستان کے بورڈز کے درمیان برف پگھلانے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
پربھاکرن تھانراج کے بقول ’میں (دونوں بورڈز کے درمیان) پل کا کردار ادا کرنے اور کھلاڑیوں کو ایک ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھنا پسند کروں گا۔‘
آئی سی سی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن دامودار نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ کھلاڑی چاہتے ہیں کہ ایسا ہو اور سیاست کو کھیل سے دور رکھا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کو ایک ہی ٹیم میں کھیلتے دیکھنا ایک خوبصورت نظارہ ہو گا۔‘