اسلام آباد سے بائیس گھنٹے کے سفر اور تقریبا 16000 فٹ کی بلندی ٹاپنے کے بعد فوٹوگرافر کی آنکھ نے یہ منظر دیکھے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر انسان خود کو ایک مصور یا شاعر تصور کرتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے یہ پہاڑ، بہتا پانی اور درخت آپ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں، کوئی ان کھلا راز آپ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کم بخت ٹیکنالوجی ان سے بات کہاں کرنے دیتی ہے؟ بس منظر دیکھا نہیں اور موبائل اور کیمرہ جیب سے باہر!
چند تصویریں ملاحظہ کیجیے؛
بابوسر ٹاپ سے نیچے اترتے ہوئے دو اتھرے اور بے نیاز گھوڑوں سے ملاقات کا ایک لمحہ جو قید ہو گیا
موسم کی خرابی اور آکسیجن کی کمی کے باعث ریس ختم کرنے کے بعد بھاگتے سائیکلسٹ سارے رنگ اپنے پیچھے بکھیرتے جا رہے تھے
راکا پوشی بیس کیمپ کی طرف جاتا نو تعمیر شدہ کچا پکا راستہ۔ انہی پتھروں پہ چل کر اوپر دیکھیں تو دیوہیکل برفیلا پہاڑ آپ پر اپنی ہیبت طاری کر دیتا ہے اور نیچے جھانکا جائے تو ایک حسین وادی اپنی طرف بلاتی ہے
روایتی ڈانس کا ایک لمحہ جس میں چوغے پر موجود پھولوں اور رقص کرنے والے کا چہرہ ہم رنگ ہیں
پسو کی وہ چوٹیاں جو تکونی شکل کی ہیں۔ جنہیں پسو کونز کہا جاتا ہے
ٹور ڈی خنجراب سائیکل ریس کا ایک تیز رفتار سائیکل سوار جو اپنی تیزی میں پہلا نمبر راستے میں ہی پیچھے چھوڑ گیا
سوست سے خنجراب جاتے ہوئے ایک ایسا مقام جہاں دونوں وقت ملتے ہیں
عطا آباد جھیل جہاں رات میں پریاں تو نہیں اترتیں لیکن دن میں رنگوں کی برسات ہوتی ہے
یاک سرائے۔ یہ تصویر مستنصر حسین تارڑ کے اس سفرنامے کا سرورق بنانے کی غرض سے ہرگز نہیں کھینچی گئی