اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، جن کو روزگار سمیت دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے۔
مگر ضلع پشین کے سرخاب مہاجر کیمپ میں مقیم ان پناہ گزینوں نے زندگی گزارنے کے لیے بنجر زمین کو قابل کاشت بنا دیا۔
ان پناہ گزینوں میں سے ایک بلوچ خان بھی ہیں، جو اس وقت بھی ضلع پشین کے سرخاب کیمپ میں مقیم ہیں اور کچن گارڈننگ کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔
بلوچ خان بتاتے ہیں کہ وہ افغانستان کے علاقے ارغستان کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب افغانستان میں روسی فوجی آئے اور ان کے علاقے میں لڑائی شروع ہوئی تو انہوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور اسی سرخاب کیمپ میں پناہ حاصل کی۔
’جب ہم یہاں آئے تو یہ علاقہ ایک جنگل تھا، زمین کاشت کے قابل نہیں تھی، جس پر ہم نے کام شروع کیا اور اس پتھریلی زمین کو ہموار کرنا شروع کیا۔‘
بلوچ خان کہتے ہیں کہ انہیں ہہاں 17 سے 18 سال ہو گئے ہیں۔ ’ہم نے اس زمین پر بہت زیادہ محنت کی اور اس کو ہموار کرنے کے لیے بیلچے اور گینتی کا استعمال کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہم ایک سال تک ایک جگہ کو ہموار کر کے قابل کاشت بناتے پھر اس کے بعد دوسری جگہ پر کام کرتے۔ اس طرح ہم نے اس علاقے کو کاشت کے قابل بنا دیا، جس کے باعث اب ہم یہاں پر سبزی اور دوسری موسمی سلاد وغیرہ کاشت کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا گزر بسر کرتے ہیں۔‘
’سال کےشروع میں ہم اس زمین پر ٹماٹر، مرچ اور بینگن کاشت کرتے ہیں۔ جو مارچ کے مہینے کے وسط تک تیار ہو جاتے ہیں۔ جون تک ہم اس کو منڈی بھیج دیتے ہیں اور اس کے بعد ہم موسمی سبزیاں کاشت کرتے ہیں۔‘
بلوچ خان کہتے ہیں کہ موسمی سبزیوں میں پودینہ، سلاد اور سبز پیاز شامل ہے۔ ہم یہ تمام سبزیاں صاف پانی سے کاشت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری سبزیاں دوسروں کی نسبت مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔
’ہماری سبزی دوسروں کے مقابلے میں پانچ کلو میں 20 سے 25 روپے زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ جو اس علاقے کی پہنچان بھی ہے۔ بیوپاری بھی ان سبزیوں کو سرخاب کے نام سے فروخت کرتے ہیں۔‘
بلوچ خان کے مطابق اس علاقے میں تقربیاً ڈیڑھ سو کے قریب گھرانے آباد ہیں، جن کی اپنی زمین ہے تو وہ خود کاشت کاری کرتے ہیں۔ جن کی نہیں ہے وہ دوسروں کے باغات میں کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم مختلف اقسام کی آٹھ سے 15 چیزیں کاشت کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں کی منڈی کا بھروسہ نہیں ہے۔ کبھی ایک چیز سو روپے اور کبھی ایک ہزار میں بک جاتی ہے۔
’ہم جب زیادہ اقسام کاشت کرتے ہیں تو اس سے ہمیں کسی ایک فصل میں منافع مل جاتا ہے، اور ہم جن سبزیوں کے دام کم ہوتے ہیں، اس کے نقصان سے بچ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری زمین چونکہ کم ہے، اس لیے ہم پانچ بند پر ایک سبزی اور پانچ بند دوسری کاشت کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک نہ ایک منڈی میں اچھے داموں فروخت ہوجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر لوگوں کے پاس بہت زمین ہے۔ وہ ایک ٹیوب ویل سے پانچ ایکڑ زمین پر کاشت فصل سیراب کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس سے اتنا فائدہ نہیں لے سکتے جتنا ہم تھوڑی سی زمین پر کم مقدار میں سبزیاں کاشت کرکے کماتے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ( یو این سی آر ) کے کوئٹہ کے سربراہ ارون پولیکر نے گذشتہ دنوں ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ بلوچستان کے پناہ گزینوں کے دس دیہاتوں میں قائم 35 سکولوں میں 20 ہزار بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں تین لاکھ سے زائد پنارہ گزین موجود ہیں۔ 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں سال اس دن کو ’جو بھی، جہاں بھی، جب بھی‘ کے عنوان سے منسوب کیا گیا ہے۔
ارون پولیکر نے بتایا کہ 2014 سے 2021 تک یو این ایچ سی آر نے تقریباً چار ہزار افغان پناہ گزینوں اور پاکستانیوں کو ہنر مندی کی تربیت دی ہے۔
رواں سال یکم جنوری سے 16 جون تک 73 خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 393 افغان باشندے افغانستان جا چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2009 سے یواین ایچ سی آر نے راہا پروگرام کے تحت 220 ملین ڈالرز سے چار ہزار 260 منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے، جس سے تقریباً 12 اعشاریہ چار ملین افراد مستفید ہوئے ہیں، جن میں 15 فیصد افغان پناہ گزین ہیں۔
رواں سال بلوچستان میں 25 سکولوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔