پچپن سالہ بی بی حوا افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں آنے والے بدترین زلزلے میں زندہ بچ گئیں لیکن ان کے خاندان کے 19 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جب ہسپتال میں زیر علاج بی بی حوا سے بات کی تو انہوں نے دل گرفتہ آواز میں بتایا کہ ’ان کے خاندان کے سات افراد مکان کے ایک کمرے میں موجود تھے۔‘
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ دیگر تین کمروں میں بالترتیب پانچ، چار اور تین افراد تھے۔
جب انہوں نے یہ الفاظ ادا کیے کہ تمام کے تمام افراد مارے گئے تو ان کی آواز مزید بیٹھ گئی جس پر انہوں نے کہا کہ ’میں مزید نہیں بتا سکتی۔ دل کمزور ہو رہا ہے۔‘
بی بی حوا ان سینکڑوں افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے بدھ کی صبح افغانستان میں 6.1 شدت کے زلزلے میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق زلزلے سے پکتیکا کے علاقے جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے زیادہ متاثر کیا ہے۔
یہ علاقہ دشوارگزار ہے اور یہاں زیادہ تر رہائشی عمارات مٹی سے بنی تھیں جو کم گہرائی سے آنے والے زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت نہ کر سکین اور ڈھے گئیں۔
ابتدائی طور پر تو مواصلات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اموات کا درست اندازہ نہیں لگ سکا لیکن اب افغانستان انتظامیہ کے مختلف ذرائع مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتا رہے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اموات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
پکتیکا کے ایک گاؤں کے رہائشی ولی خان بھی مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کے مکان کی چھت زلزلے سے گر گئی تھی اور وہ زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب چھت گری تو محسوس ہوا جیسے مجھے بندوق کی گولی لگی ہے۔ میرا جسم درد میں تھا اور جل رہا تھا۔ میں نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔‘
ولی خان کا کہنا ہے کہ کچھ دیر بعد وہ کھڑا ہونے میں کامیاب تو گئے لیکن جوں ہی اپنے رشتے داروں کو مکان کے ملبے تلے دبا دیکھا تو جسم سے پھر جیسے جان نکل گئی۔
افغانستان میں 1998 کے بعد آنے والا یہ شدید ترین زلزلہ تھا۔ 1998 میں بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں 6.1 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے تقریباً چار ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں۔
اروپ خان کی کہانی بھی دیگر افراد کی طرح ہے۔ ان کے شیرخوار بچے کی ٹانگ زلزلے میں متاثر ہوئی ہے۔
اے ایف پی کو انہوں نے زلزلے کے بعد کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب میں اٹھا تو مٹی سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ لوگ آئے اور ہمیں باہر نکالا۔ وہ بھیانک صورت حال تھی۔‘
زلزلے کے کچھ دیر بعد کے مناظر یاد کرتے ہوئے اروپ نے بتایا کہ ’کچھ لوگ گھروں میں پڑے تھے۔ کچھ لوگ مہمان خانوں میں۔ باقی لوگ مساجد میں تھے۔‘
اروپ زلزلے سے گذشتہ رات کسی کام کے سلسلے میں مہمان خانے میں رک گئے تھے۔ زلزلے کے بعد ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے گھر کی راہ لی اور وہاں پہنچنے پر انہوں نے جو دیکھا وہ ان کے ہوش دوبارہ اڑانے کے لیے کافی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب میں مہمان خانے سے اپنے گھر پہنچا تو وہاں شور شرابا تھا۔ بچے اور میرا سارا خاندان ملبے تلے تھے۔ وہ بہت دردناک منظر تھا۔‘
پاکستان سمیت کئی بین الاقوامی اداروں اور ممالک نے افغانستان میں زلزلہ متاثرین کے لیے امداد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھاڑتی (این ڈی ایم اے) سمیت دیگر متعلقہ ادارے امدادی سامان پہنچانے کی غرض سے افغان انتظامیہ سے تعاون کر رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایات پر افغانستان بھیجی جانے والی امداد میں خیمے، ترپالیں، کمبل اور ادویات شامل ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر پاکستان سے خوراک اور دیگر سامانِ ضرورت کے آٹھ ٹرکوں کے پکتیکا پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے ایران اور قطر سے امدادی سامان سے لدے دو ہوائی جہازوں کے افغانستان پہنچنے کی بھی تصدیق کی ہے۔
روئٹرز نے پاکستان میں ایمبولینس سروس کا سب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے والی ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ وہ تنظیم میں عملی طور پر امدادی کارروائیوں کا حصہ ہے۔
ادارے کو ایک انٹرویو میں ایدھی فاؤنڈیشن کے عہدیدار سعد ایدھی نے بتایا کہ ’ایدھی سینٹر افغانستان میں بھی موجود ہے۔ وہاں سے ہمارے افغانستان سینٹر کی ایمبولینسیں طورخم بارڈر سے زلزلے کے مرکز کی طرف روانہ ہو گئی ہیں۔ ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’باقی کراچی اسلام آباد اور پشاور سے ہماری ٹیمیں افغان سفارت خانے سے رابطے میں ہیں۔ سفارت خانہ جیسے ہی ہمیں اجازت دے گا ہم زلزلے کے مرکز کی طرف نکل جائیں گے پاکستان سے ایمبولینسیں لے کر افغانستان میں۔‘
ایک سوال کے جواب میں سعد ایدھی نے کہا کہ ’وہاں پر دیکھیں گے۔ اگر وہاں گنجائش ہوئی تو وہاں لے کر جائیں گے اور اگر وہاں قابو نہ پا سکے یہ ہنگامی صورت حال بہت بڑی ہوئی تو شاید مریضوں کو پاکستان بھی منتقل کیا جائے۔‘روئٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ افغان حکام کو دور افتادہ متاثرہ علاقے تک رسائی اور امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے پکتیکا کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر کے ترجمان محمد اسمٰعیل معاویہ کا بیان درج ہے کہ ’ہم علاقے تک نہیں پہنچ پا رہے۔ ذرائع مواصلات بہت کمزور ہیں۔ ہم تازہ معلومات لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے نائب نمائندہ برائے افغانستان رمیض الکابروف کا بیان درج کیا ہے کہ ’تاحال افغانستان نے امداد کے لیے نہیں کہا۔‘
اے پی نے لکھا ہے کہ ’طالبان انتظامیہ اور دیگر دنیا کے درمیان سرد تعلقات کی نشانی کے طور پر تاحال انہوں نے اقوام متحدہ سے باضابطہ درخواست نہیں کی، نہ بین الاقوامی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کو متحرک کیا ہے یا پڑوسی ممالک سے سامان مستعار لیا ہے تاکہ چند درجن ایمبولینسوں اور ہیلی کاپٹروں کا ہاتھ بٹایا جا سکے۔‘
رپورٹ میں اقوام متحدہ کی متعدد ذیلی زیجنسیوں کے حوالے سے یہ بھی تحریر ہے کہ طالبان انہیں متاثرہ علاقوں میں نقل و حرکت کی مکمل اجازت دے رہے ہیں۔