ایک چوالیس سالہ افغان، جس نے طالبان کی حکومت کے قیام سے 15 سال پہلے تک کابل میں لکڑی سے مجسمہ سازی کی اب مزید ایسا کرنے سے قاصر ہے۔
افغانستان کے حکمراں طالبان اس کے کام کو ’بت پرستی‘ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا تھا اور اب ان کی ورکشاپ بند کر دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے خوف سے انہوں نے اپنے زیادہ تر فن پاروں کو تباہ کر دیا ہے بلکہ سوشل میڈیا سے اپنے فن کی کچھ تصاویر بھی ہٹا دی ہیں۔
سہیل (فرضی نام) پندرہ سال قبل ایران سے مجسمہ سازی اور لکڑی کے نقش و نگار کی تربیت حاصل کرنے کے بعد واپس آیا تو اس نے کابل میں ایک ورکشاپ قائم کی۔ کچھ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ وہ ان سے یہ فن سیکھیں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور اس کا کام فنی خصوصیات اور نزاکت کی وجہ سے ترقی کرتا گیا۔
سہیل نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا، ’میرے پاس صدارتی محل سے لے کر وزارتوں اور بین الاقوامی اداروں تک کے کلائنٹس تھے اور میں نے ان کے لیے لوگو، تمغے اور مجسمے ڈیزائن اور تیار کرتا تھا۔‘ ان کے بقول کابل میں قائم سفارت خانہ، اس کے ٹھیکیدار اور کئی دیگر ممالک اور بین الاقوامی اتحادی افواج (نیٹو) کے دفاتر ان کے کلائنٹ کی فہرست میں شامل تھے۔
وہ کہتے ہیں: ’صارفین کی ایک بڑی تعداد وہ تھی جن کے پاس افغانستان میں غیرملکی فوجی کیمپوں میں داخلے کے کارڈ تھے اور وہ کیمپ کے اندر موجود بازار میں ہفتے میں ایک بار دست کاری کا میلہ لگاتے تھے۔ غیرملکی فوجیوں نے مجھے زیورات کے ڈبے بنانے کا آڈر دیا، جس میں اس شخص کا نام کندہ کیا گیا جسے وہ تحفہ دے رہے تھے۔‘
افغان مجسمہ ساز سہیل کا مزید کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار اس کا کابل میں ایک چوکی پر ان سے سامنا ہوا۔ تلاشی کے دوران طالبان سپاہیوں نے اس کا سیل فون اپنے قبضے میں لے لیا جس سے اس ان کو مجسموں اور فن پاروں کے ساتھ ساتھ غیرملکی فوجیوں کے ساتھ اس کی تصاویر بھی ملیں۔
سہیل کہتے ہیں: ’طالبان نے مجھے کہا کہ تم نے کافروں کے لیے بت بنائے۔ اور پھر کئی نے مجھے مارا پیٹا۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’طالبان نے مجھے سڑک کے بیچوں بیچ بجلی کی تار سے مارا، یہ کہہ کر کہ وہ ہزار سالہ کافر ہے۔‘
طالبان سپاہیوں نے سہیل کو بری طرح مارنے کے بعد سڑک پر چھوڑ دیا۔ بعد میں مقامی لوگوں نے انہیں بچا لیا۔
جلد ہی طالبان ان کی ورکشاپ تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ سہیل نے کہا، ’16 ستمبر 2021 کو طالبان (انٹیلی جنس سروس) کے دو ارکان ورکشاپ میں آئے اور مجھے لے گئے۔ وہاں مجھ سے پوچھ گچھ کی گئی اور مار پیٹ کے بعد مجھے ہتھکڑیاں لگا کر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔‘
سہیل کے مطابق اسے طالبان کے ایک حراستی مرکز میں ایک دن کے لیے رکھا گیا تھا۔ انہیں گرفتار کرنے والے طالبان کمانڈر نے ان پر ’خیانت‘ کا الزام لگایا تھا۔ سہیل کو بالآخر اپنے بوڑھے والد اور ایک دوست کی ثالثی کے ذریعے ضمانت پر رہا کر دیا گیا جس کے مقامی طالبان کے ساتھ نسبتاً بہتر تعلقات تھے۔ لیکن طالبان نے ان کی ورکشاپ بند کرنے پر مجبور کر دیا۔
اس بارے میں طالبان کا موقف دستیاب نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاص فنکارانہ نزاکت کے ساتھ لکڑی پر نقش و نگار اور کندہ کاری کی افغانستان میں بہت زیادہ پرانی تاریخ نہیں ہے۔ اس شعبے میں فنکاروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ تاہم اس فن کے لیے درکار موزوں لکڑی کی بعض بہترین اقسام افغانستان کے جنگلات میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں لیکن اب تک ملک میں اس قدرتی پیداوار کے فنکارانہ استعمال کے شعبے میں کوئی سنجیدہ سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
صرف نورستان، کنڑ اور جنوب مشرقی افغانستان کے کچھ دوسرے گھنے جنگلات والے صوبوں میں کچھ بڑھئی اور لکڑی کے کاریگر کافی عرصے سے لکڑی کو سادہ، قدیم طریقوں سے تراشتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کام بھی حالیہ برسوں میں سرمایہ کاری اور مارکیٹنگ کی کمی کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ہے۔
سہیل، جو لکڑی کے نقش و نگار اور مجسمہ سازی میں اپنی فنکارانہ مہارت کے ساتھ، اپنی مارکیٹنگ کی مہارت کو استعمال کرنے اور اپنے فن کو کم از کم کابل اور آس پاس کے شہروں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اچھی طرح سے پہچانے کے قابل تھے لیکن اب انہوں نے طالبان کی مزید انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے اسے ترک کر دیا ہے۔
وہ بڑے دکھ کے ساتھ اپنی فنی زندگی کو برباد سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب وہ اپنے خاندان کے پیٹ بھرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ سہیل کہتے ہیں، ’بازار عموماً خالی اور خاموش رہتا ہے۔ میں وقتاً فوقتاً کارپینٹری کی دکانوں پر جاتا ہوں، اور اگر مجھے کوئی نوکری مل جائے تو میں تھوڑی سی تنخواہ پر کام کر لیتا ہوں۔‘
نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکی ہے۔