سپریم کورٹ آف پاکستان نے منشیات کے مقدمے میں عدالتی وارنٹ کے بغیر چھاپہ مارنے اور ملزم کی گرفتاری کو درست قرار دے دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے جمعے کو ملزم ذوالفقار علی شاہ کی گرفتاری کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ چھ صفحات پر مشتمل فیصلے میں انسداد منشیات کے پی ایکٹ 2019 کی شق 27 کی تشریح کی گئی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق خیبر پختونخوا پولیس نے چرس کی فروخت کی معلومات کی تصدیق کے بعد ملزم سید ذوالفقار علی شاہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور مبینہ طور پر منشیات بر آمد کی۔
ملزم نے گرفتاری کے بعد پشاور ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، جس کے خارج ہونے پر انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارنے کے لیے عدالتی سرچ وارنٹ حاصل نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سرچ وارنٹ کے بغیر کسی کے گھر پر چھاپہ مارنا خلاف قانون ہے، اس لیے ان کے گھر سے منشیات کی مبینہ برآمدگی کو بھی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا۔
درخواست گزار نے اپنے دفاع میں انسداد منشیات ایکٹ کی شق 27 کا حوالہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ منشیات سے متعلق مقدمات میں ملزم کے غائب ہو جانے کے خدشے کے پیش نظر پولیس کو رسمی کارروائی میں نہ پڑنے کے عدالتی نظائر موجود ہیں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سرچ وارنٹ کے بغیر گرفتاری کی دلیل پر ٹرائل روکا جاسکتا ہے نہ سزا ختم کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ سرچ وارنٹ کے بغیر گرفتاری کے سبب کسی ملزم کو بری نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے سید ذوالفقار علی شاہ کی ضمانت کی درخواست خارج کردی۔