آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض دینے کے حوالے سے ابھی تک کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں دیا ہے۔ لیکن چین کی طرف سے حال ہی میں پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا قرض وصول ہوگیا ہے۔
وزرات خزانہ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ فنڈز زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 2.3 ارب ڈالر کتنی دیر کے لیے معیشت کو سہارا دے سکیں گے؟
ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو ہر تین یا چار ماہ کے بعد قرض ملنے پر اسی طرح مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کو ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سالوں میں یہ ڈیمانڈ 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکٹری ظفر پراچہ نے چین سے قرض ملنے کو کمرشل ڈیل قرار دیا ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’پہاڑوں سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی‘ والا جملہ نامناسب ہے۔ چین نے آج تک جو کچھ بھی پاکستان کو دیا ہے اس کی ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہیں۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے جو کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوستی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور آئی ایم ایف کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ حقیقت میں اصل دوست آئی ایم ایف ہے نہ کہ چین۔ اگر ملک میں چھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی کی بدولت ہے۔ پاکستان کو چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں اور معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی نے چینی معاہدوں میں کافی ردو بدل کیا تھا جو کہ ملکی مفاد میں تھا۔ اس سے چینی قرضوں میں کمی ممکن ہو سکے گی۔‘
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چین کے قرض کو عارضی ریلیف کہا جا سکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ چین سے قرض ملنے کی امید شاید اصلاحات کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے، تو غلط نہیں ہو گا۔
’پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف پیکج بحال نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ چین کو 50 ارب روپے کی ادائیگی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے مرحلے میں پاکستان پر چین سے مزید قرض لینے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کے لیے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس سے معاشی سمت درست ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر فرح سلیم نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب شہباز شریف حکومت میں آئے تو ملک ڈیفالٹ کی حالت میں تھا۔ چین سے ملنے والے قرض سے تھوڑا سانس بحال ہوا ہے۔ اب یہ امید بن گئی ہے کہ ملک فوری ڈیفالٹ نہیں ہو رہا۔ 2.3 ارب ڈالر ملنے کے علاوہ اگلے ہفتے ایک ارب ڈالر کے قرض رول اوور بھی ہو جائیں گے، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ چین کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو آمدن بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے لیے بھی پابند کرے۔
’پاکستان اداروں کی نجکاری کر کے اپنے اخراجات کم کر سکتا ہے، لیکن موجودہ بجٹ میں اس کی کوئی جگہ نہیں رکھی گئی۔ چین پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان اس کے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ چینی کمرشل قرضے بھی ہیں۔ پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے۔‘
ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ چین کے قرضے پاکستانی معیشت چلانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔ ڈالر کا بڑھنا، مہنگائی میں اضافہ، زرمبادلہ ذخائر میں کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدات میں تاریخی اضافہ جیسے مسائل چینی قرضوں سے حل ہونا ناممکن ہے۔ بلکہ یہ ملکی معاشی بوجھ میں اضافے کا ہی سبب بنے گا۔ اصل فائدہ برآمدات میں اضافہ کر کے، مقامی صنعت کو فروغ دے کر اور قرضوں پر انحصار کم کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان پر ہر تین ماہ بعد ڈیفالٹ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔