کل رات ایک نجی چینل سے فون آیا۔ معیشت پر بات کرنے کے لیے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔
میں نیوز چینل کے دفتر پہنچا تو وہاں کا سٹاف مایوس دکھائی دیا۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس نیوز چینل کے پروگراموں میں شرکت کے لیے آتا رہا ہوں لیکن جو پریشانی آج ان کے چہرے پر تھی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
میرے ساتھ ن لیگ، ق لیگ اور تحریک انصاف کے سیاسی رہنما بھی پروگرام میں موجود تھے۔ معیشت کے حوالے سے میں نے اپنی رائے کا اظہار تو کر دیا لیکن افسوس اس وقت ہوا جب تحریک انصاف اور ق لیگ کے رہنما پروگرام میں قہقہے لگاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے بعد ن لیگ مشکل میں پڑ گئی ہے، انہیں عوام کی تکلیف کی ہرگز پروا نہیں تھی۔
میں نے پروگرام ختم ہونے کے بعد سابق وزیر خزانہ سلیمان شاہ صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ سبسڈی کا معاملہ آگے کہاں تک چلے گا۔
انہوں نے بتایا: ’حکومت نے ابھی سبسڈی مکمل طور پر ختم نہیں کی ہے، یہ پہلا قدم ہے، ابھی پیٹرول مزید مہنگا کرنا پڑے گا۔‘
اس کی تائید کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا بھی کہنا تھا کہ ’حکومت اب بھی تقریباً 56 روپے سبسڈی دے رہی ہے۔ حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق مکمل سبسڈی ختم کرنا ہو گی۔ معاملہ صرف یہاں تک نہیں رکے گا، بلکہ اگلے بجٹ کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پرائمری خسارے کو پرائمری سرپلس میں تبدیل کیا جائے۔ حکومت کو اخراجات قرضوں کی بجائے آمدن سے پورے کرنا ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’چاروں صوبے کیش سرپلس کو یقینی بنائیں، جو کہ حکومت کے لیے ایک بڑا ہدف ہو گا۔ نئے ٹیکس لگانے ہوں گے اور مزید قرض لینے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ بجٹ میں کئی شعبوں پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔ ٹیکس ریٹس بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس چھوٹ بھی ختم کی جائے گی۔ ایف بی آر پچھلے سال کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا ہے، اس کی بھرپائی بھی اسی سال کرنے کا معاہدہ زیر غور ہے۔‘
وزیر خزانہ کے بقول: ’تنخواہ دار طبقے پر اِنکم ٹیکس دوگنا کرنے کی تجویز ہے۔ صنعتوں کو ملنے والی سبسڈی بھی ختم کرنے پر بات ہو رہی ہے۔ یعنی کہ اگلا بجٹ کسی بھی طرح عوام دوست ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ عوام کی قوت خرید کم ہو گی۔ آٹا، دالیں، گھی جیسی بنیادی اشیا عوامی پہنچ سے دور ہو جائیں گی، بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو تشویش ناک ہے۔‘
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس حوالے سے بتایا: ’آئی ایم ایف پروگرام جہاں بھی شروع ہوتا ہے وہاں عوام کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان کی شرائط سخت ہوتی ہیں کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے حکمران کرپشن روکنے اور اپنی عیاشیوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مشیروں کے نام پر 25 لاکھ روپے ماہانہ تک کے ملازم بھرتی کر رکھے ہیں، جن کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے بتایا: ’دو لاکھ سرکاری تنخواہ والے ملازم کو ایک کروڑ روپے کی گاڑی اور ہزار لیٹر پیٹرول غریب عوام کے ٹیکس سے دیا جاتا ہے۔ ان خرچوں کو کم کر کے بھی آئی ایم ایف کے ریوینیو اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں، لیکن حکمران عوام پر بوجھ ڈالنے کو ہی آسان حل سمجھتے ہیں۔ یہ بوجھ آئی ایم ایف نے نہیں ڈالا بلکہ ہمارے حکمرانوں نے مسلط کیا ہے۔
’آئی ایم ایف ہماری معیشت کو کامیاب اصولوں کے مطابق چلانا چاہتا ہے۔ وہ ہمارا محسن ہے اور ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔‘
ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا: ’حکومت نے درآمدات پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن آئی ایم ایف کا اسے ختم کرنے کا مطالبہ ہے کیونکہ جو ممالک آئی ایم ایف کو فنڈز دیتے ہیں وہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کی اشیا کی برآمدات پر پاکستان میں پابندی لگے۔ ڈالر ریٹ اور شرح سود بڑھا کر حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کے مطالبات پر عمل درآمد کر چکی ہے۔‘
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے مجھے بتایا: ’ابھی تو شروعات ہے، حکومت نہ صرف مکمل سبسڈی ختم کرے گی بلکہ پیٹرولیم مصنوعات پر مزید ٹیکس بھی لگائے گی۔ شوکت ترین نے 30 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی لگانے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 300 روپے تک بھی پہنچ سکتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’نئے بجٹ کی شرائط بھی عوامی مشکلات بڑھائیں گی۔ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی زیر غور ہے لیکن ایسا نہ ہو تو اچھا ہے۔ کراچی الیکٹرک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ منصوبہ بظاہر ناکام دکھائی دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر پر سبسڈی ختم کرنے کے معاملے پر بات جاری ہے لیکن حکومت اگر سمجھداری سے کام لے تو ایکسپورٹرز کو بچا سکتی ہے کیونکہ برآمد کندگان کا مطالبہ ہے کہ ان کو بجلی کی وہ قیمتیں ملنی چاہییں جو انٹرنیشل مارکیٹ میں ہیں۔ ’حکومت کے انرجی منصوبوں کی کارکردگی کمزور ہے تو اس کا نقصان برآمد کندگان کو نہیں ہونا چاہیے۔‘
حفیظ پاشا کا کہنا تھا: ’پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بنیادی مطالبات ہیں۔ اگر ان پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو قرض مل جائے گا۔ لیکن یہ جولائی 2022 سے پہلے ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے زیادہ اچھی خبریں لاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ملک شاید دیوالیہ ہونے سے بچ جائے لیکن عوام کے دیوالیہ ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
پریشانی کا معاملہ یہ بھی ہے کہ معاشی مسائل کا مستقل حل دکھائی نہیں دے رہا۔ آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر ملنے کے بعد سعودی عرب، چین، عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک تقریباً 10 ارب ڈالر قرض دے سکتے ہیں جس سے بمشکل پانچ ماہ گزر سکیں گے۔
اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا پاکستان دوبارہ آج کی پوزیشن پر کھڑا ہو گا اور حکومت ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبر سنا رہی ہو گی؟
یہ وقت آمدن بڑھانے کا ہے۔ برآمدات میں اضافے کو پہلی ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔