خیبر پختونخوا کے سب سے بڑی تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے صوبائی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے ادارے کے لیے 20 کروڑ روپے کا بجٹ منظور کرنے کے بعد اسے خود ہی خامیاں نکال کر مسترد کر دیا۔
یونیورسٹی ملازمین نے اس حوالے سے حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔
تاہم صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش کا کہنا ہے کہ ’ادارے کا بجٹ مسترد نہیں کیا گیا بلکہ وائس چانسلر کی کاہلی کی وجہ سے منظور شدہ بجٹ کا بروقت فالو اپ نہیں کیا اور پیسے واپس خزانے میں چلے گئے۔‘
دوسری جانب کچھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ خیبر پختونخوا مالی بحران کا شکار ہوگیا ہے، جس کے لیے اپوزیشن اور بعض صحافتی حلقے صوبائی حکومت کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔
صوبے میں مالی بحران کے سوال کی تائید اور تصدیق نہ صرف وزیر ہائرایجوکیشن کامران بنگش بلکہ وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے بھی کی۔
کامران بنگش نے بتایا کہ ’اگرچہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے لیے پیسے مختص ہوئے تھے، لیکن چونکہ خیبر پختونخوا کو مالی نظام میں درستگی اور روانی لانی ہوتی ہے، لہذا اگر کوئی ادارہ ان پیسوں کا حصول وقت پر نہیں کرتا تو وہی رقم دوسرے کاموں پر خرچ ہوجاتی ہے۔‘
وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے مالی بحران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’موجودہ وفاقی حکومت نے صرف دو ماہ کے عرصے میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے اور خیبرپختونخوا کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے قصداً صوبے کے واجب الادا فنڈزکی ترسیل رکوا دی ہے۔‘
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے اپنی مدد آپ کے تحت مسلسل ’غیرمعمولی‘ اقدامات کرتے ہوئے خود کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا۔
مزید پڑھیے: اسلامیہ کالج یونیورسٹی ہراسانی: استاد کو ہٹانے کی سفارش
ان کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا میں مالی بحران کے باوجود نظام کو رواں دواں رکھنے اور اس کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا سہرا پاکستان تحریک انصاف حکومت کے سر جاتا ہے، اس کا وفاقی حکومت کو کوئی کریڈٹ نہیں جاتا، کیونکہ انہوں نے تو ہمارے واجب الادافنڈز دینا بند کردیا ہے، جس کی وجہ سے ہمیں ماہانہ ادائیگیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘
تیمور جھگڑا نے کہا کہ ان کی حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دے گی اور بہت جلد وہ اس بحران سے نکل جائیں گے۔
ان کے مطابق: ’خیبر پختونخوا کبھی سرپلس نہیں گیا۔ دوسرے صوبوں کے برعکس ہمارا صوبہ فورکاسٹ ماڈلز، ریوینیو فورکاسٹ ماڈلزپر خرچ کرتا آ رہا ہے، جس کی ہم ہر ماہ نگرانی کرتے ہیں، ہم مختلف جگہوں پر بچت کرکے اور ریونیو پیدا کرکے صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور خوراک میں سبسڈی دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ اس سال فوڈ سبسڈی ہم نے تین ارب سے بڑھا کر 15 ارب کردی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کا ترقیاتی فنڈ بھی ابھی تک جاری نہیں کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی حکومت کی ترجمان اور وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب سے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی، تاہم انہوں نے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے اورتحریری سوال بھیجنے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا مسئلہ کیا ہے؟
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا مالی بحران عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس کے لیے مختلف دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد کے مطابق انہیں بھی دوران ملازمت اسی مسئلے کا سامنا تھا اور انہیں اضافی ملازمین ہٹانا مہنگا پڑا تھا۔ دو سال قبل اسی موضوع پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’صرف تین سال کے عرصے میں یونیورسٹی کی تنخواہیں تین کروڑ سے بڑھ کر 10 کروڑ تک پہنچ گئیں۔‘ ان کے مطابق: ’یہ سب ضرورت سے زیادہ عملہ رکھنے کی وجہ سے ہوا،‘ جب کہ دوسری وجہ انہوں نے یونیورسٹی میں کرپشن قرار دی تھی۔
موجودہ وقت میں ایک مرتبہ پھر فنڈز نہ ملنے اور بجٹ مسترد ہونے کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے، جس کے بارے میں یونیورسٹی کی یونینز اور ایسوسی ایشنز کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو بجٹ خود منظور کیا تھا، اسی کو مسترد کیا۔
ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن اسلامیہ کالج کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اظہار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ادارے کی بربادی اور طلبہ پر فیسوں کا بھاری بوجھ پڑنے کی صورت میں نکلے گا۔‘
پروفیسر اظہار نے مزید بتایا کہ حکومت نے ان کے ادارے کو خود ریونیو جنریٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے، جسے انہوں نے ’غیر منطقی اور غیر حقیقی‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے: غیر قانونی تعمیرات سے اسلامیہ کالج کی خوبصورتی متاثر
ان کا کہنا ہے کہ ’یونیورسٹی بجٹ کے حوالے سے ہماری حکومت کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے بعد صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے مختص دو ارب میں 20 کروڑ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار سے منظور ہوئے تھے، جس کا حکومت نے اعلامیہ جاری کیا تھا اور وزیر خزانہ نے اس پر ایک ٹویٹ بھی کی تھی، اب اسی میں وزیر ہائرایجوکیشن اور ان کا محکمہ خامیاں نکال رہے ہیں۔‘
پروفیسر اظہار نے بتایا کہ ’محکمہ اعلیٰ تعلیم اور وزیر ہائر ایجوکیشن اساتذہ کی ہاؤسنگ سبسڈی اور ریکویزیشن کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘
’کئی اساتذہ کی 20 اور 30 سال کی خدمات ہیں، آخر حکومت سیکریٹریز کی مراعات اور خرچوں پر کیوں ضرب نہیں لگاتی۔‘
ان کے مطابق حکومت انہیں ہارورڈ، کیمرج اور آکسفورڈ کی مثالیں دے رہی ہے، لیکن یہ نہیں دیکھ رہی کہ ان اداروں کی تاریخ بھی سینکڑوں سال کی ہے اور وہ حکومتوں کے تعاون سے اس مقام تک پہنچی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اسلامیہ کالج کا خزانہ بالکل خالی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے صرف تنخواہیں دینے پر رضامندی دی ہے، جس سے ادارے کے دوسرے کام جیسے کہ اسلامیہ کالج کی پرانی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ طلبہ پر فیسوں کی مد میں اضافی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔‘
’موجودہ وقت میں طالب علموں سے 35، 40 ہزار روپے فی سیمسٹر لیا جارہا ہے، جبکہ اتنی ہی فیس پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی لے رہی ہیں۔ اگر حکومت مدد نہیں کرسکتی تو پھر نگرانی کس بات کی کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’دراصل پی ٹی آئی حکومت نے کبھی یونیورسٹی کو اپنی ترجیح سمجھا ہی نہیں۔ لگتا ہے حکومت کی نظر اسلامیہ کالج کے اثاثوں پر ہے، جس کے لیے وہ اس ادارے کو اس حال میں لا کر نجکاری کی طرف لے جانا چاہتی ہے، ہم یہ ہونے نہیں دیں گے اور سوشل میڈیا پر ایک مہم چلا کر ان مذموم مقاصد کو بے نقاب کریں گے۔‘
پروفیسر اظہار نے کہا کہ ’ہفتے کے روز ہونے والی سینیٹ میٹنگ میں منتخب ارکان کو مدعو نہیں کیا گیا جو اپنی یونیورسٹی، مفادات اور بجٹ کا دفاع کرتے۔‘
پروفیسر اظہار کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وزیر ہائر ایجوکیشن کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بجٹ مسترد نہیں کیا گیا، انتظار کرنے کا کہا گیا ہے، کیونکہ متعلقہ یونیورسٹی نے بجٹ کا جون کے آغاز پر فالو اپ نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا: ’جن یونیورسٹیوں کو بجٹ کی ضرورت تھی، وہ دن رات اس کے لیے کوشاں تھیں۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپنی کاہلی کی وجہ سے بجٹ وصول کرنا بھول گئے تھے اور جب احساس ہوا تو پیسے واپس خزانے میں جا چکے تھے۔ یہی نہیں وائس چانسلر نے یونیورسٹی بجٹ میں 20 کروڑ کی رقم ظاہر کرکے نہ صرف سینیٹ بلکہ حکومت کے ساتھ بھی ’انٹیلیکچول بددیانتی‘ کی کوشش کی، تاکہ خسارہ کم دکھا سکیں۔‘
کامران بنگش کے مطابق: ’20 کروڑ کی جو رقم حکومت نے منظور کی تھی وہ ابھی یونیورسٹی کو فراہم نہیں کی گئی تھی، لیکن وائس چانسلر نے پھر بھی بجٹ میں اس کو ظاہر کیا تھا، جس کو سینیٹ نے پہلے ہی نامنظور کیا تھا۔‘
’اگر ہم غلطی سے اس روز بجٹ کو منظور کرلیتے، تو یہ قانونی طور پر سینیٹ کی خلاف ورزی میں شمار ہوتی۔‘
وزیر ہائر ایجوکیشن نے بتایا کہ ان ہی کی تجویز پر پشاور یونیورسٹی، ہزارہ، ہری پور اور عبدالولی خان یونیورسٹی اپنے اخراجات کم کرکے ریسرچ، فنانس سکیموں کو متعارف کرکے سرپلس میں چلی گئی ہیں، یہی تجویز اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے لیے بھی ہے، جو بقول وائس چانسلر کے صرف 30 کروڑ روپے اپنے اثاثوں سے پیدا کر سکتی ہے۔
بقول کامران بنگش: ’وائس چانسلر کو بارہا یاد دلایا گیا کہ جامعہ کی پراپرٹی کو بہترین طریقہ سے استعمال کریں تاکہ جو زمینیں ٹرسٹیز نے دی تھیں وہ کارآمد طریقہ سے استعمال ہوں اور وہ انکم طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام پر بطور سرمایہ استعمال ہو۔ اس پر بھی وائس چانسلر کی جانب سے کوئی عملدرآمد سامنے نہیں آیا جس پر سینیٹ ممبران نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔‘
اس تمام معاملے پر اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر گل مجید خان سے متعدد بار رابطہ کیا گیا، تاہم انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے اجتناب کیا۔ یونیورسٹی کے موجودہ رجسٹرار منصور جلالی کو بھی پیغام بھیج کر رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے بھی اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔
جامعات کی مالی مشکلات اور صوبائی حکومت کے فیصلوں کے خلاف آل یونیورسٹیز ایمپلائیز فیڈریشن نے پانچ جولائی کو صبح نو بجے پیوٹا چوک جامعہ پشاور میں مشترکہ احتجاجی جنرل باڈی اجلاس طلب کی ہے، جس میں آئندہ کا لائحہ عمل برائے ہڑتال پروگرام ترتیب دیا جائے گا۔