حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین جاری مذاکراتی دور کے حوالے سے پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی کی جانب سے باقاعدہ ایک ویڈیو انٹرویو جاری کیا گیا ہے جس میں مذاکرات کے مختلف پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔
یہ انٹرویو ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ ’عمر میڈیا‘ کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود (ٹی ٹی پی کی جانب سے ان کا نام ابو منصور عاصم بتایا جاتا ہے) سے اس انٹرویو میں ایک شخص سوالات کر رہا ہے اور نور ولی محسود ان کے جواب دے رہے ہیں۔
انٹرویو کے شروع میں سوالات کرنے والا شخص کہہ رہا ہے کہ مختلف صحافیوں کی جانب سے سوالات بھیجے گئے تھے لیکن ہر ایک کو الگ الگ انٹرویو دینا مناسب نہیں تھا، اس لیے اب اس انٹرویو میں ان تمام سوالات کے جوابات دیے جا رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرت کا یہ دور چند مہینے پہلے سے شروع ہوا اور اسی سلسلے میں گذشتہ ماہ حکومت کی جانب سے ایک جرگہ کابل بھیجا گیا تھا تاکہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کرے۔
ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان نے مذاکراتی عمل شروع ہونے کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔
اس جرگے میں خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سمیت قبائلی اضلاع سے کچھ اراکین اسمبلی بھی شامل تھے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں نور ولی سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کی جانب سے مذاکراتی عمل کی نگرانی کون کر رہا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: ’حکومت پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی نمائندگی کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کر رہے ہیں جبکہ ٹی ٹی پی کی جانب سے نمائندگی وہ خود کر رہے ہیں۔‘
نور ولی سے پوچھا گیا کہ ’کیا جنرل فیض حمید کے ساتھ ٹی ٹی پی کی براہ راست ملاقاتیں بھی ہیں؟‘ تو انہوں نے مختصر جواب دیتے ہوئے بتایا، ’جی ہاں۔‘
تاہم پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر ابھی تک باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے اور نہ اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پشاور کے کور کمانڈر جنرل فیض حمید ان مذاکرات میں نمائندگی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی کے انٹرویو پر انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے گذشتہ ہفتے نیشنل سکیورٹی کمیٹی اجلاس کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مذاکرات ہوں گے اور بات چیت کے ذریعے ملک میں امن بحال کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے سول اور ملٹری لیڈرشپ پر مشتمل وفد اس مذاکراتی عمل میں حصہ لے رہا ہے۔
مذاکراتی عمل کی کامیابی کے حوالے سے نور ولی نے کہا: ’ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ یہ مذاکرات شریعت کی روشنی میں کامیاب ہوجائیں اور مذاکرات میں ناکامی کے اسباب کو ختم کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔‘
اس سارے مذاکراتی عمل میں ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی اضلاع کی ضم شدہ حیثیت کو واپس بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مبصرین کے مطابق پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل مطالبہ ہے۔
نور ولی نے بتایا: ’تمام مطالبات میں ہمارے لیے سب سے اہم قبائلی اضلاع کی آزاد حیثیت بحال کرنا ہے اور ہم اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘
نور ولی کا کہنا تھا: ’امارت اسلامی (افغان طالبان) ان مذاکرات میں صرف سہولت کار یا میزبان نہیں بلکہ وہ ان مذاکرات میں ثالث ہیں۔ پاکستان مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔‘
اس مذاکراتی عمل میں ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا تھا کہ حکومت پاکستان ان کے قیدیوں کو رہا کرے۔ اس حوالے سے مفتی نور ولی نے بتایا کہ ان کے کچھ قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے لیکن ابھی بھی ان کے رہنماؤں پر حکومت پاکستان کے جانب سے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
مفتی نور علی نے بتایا: ’حکومت پاکستان کا یہ غیر سنجیدہ عمل مذاکرات کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
پاکستانی حکومت کی جانب سے کیے گئے مطالبات کے حوالے سے جب استفسار کیا گیا کہ کیا یہ سچ ہے پاکستان ٹی ٹی پی کو ختم کرنے، پاکستانی آئین کو تسلیم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا کہہ رہا ہے، تو اس کے جواب میں مفتی نور ولی کا کہنا تھا: ’جو معقول اور موزوں مطالبات ہوں گے ان پر بات کی جا سکتی ہے لیکن جو مطالبہ تحریک کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا، وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔‘
’جاری مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں کیا آپ لوگ دوبارہ حملے شروع کریں گے؟‘ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’یہ واضح بات ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حملے دوبارہ شروع کریں گے۔‘
مفتی نور ولی سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ جمہوریت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’جی ہاں۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم نے اپنے مقصد کے لیے یہ راستہ (مذاکرات) اختیار کیا ہے، اور تمام جنگوں کے بعد لوگ مذاکرات کی میز پر آتے ہیں۔ میدان جنگ میں ہم ابھی تک فتح سے ہم کنار ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ ہم اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا، اس کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔‘