افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے زیر انتظام مذہبی اور قبائلی رہنماؤں کا جرگہ غیر ملکی حکومتوں سے طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے جیسے مطالبات پر ختم ہو گیا ہے۔
تاہم جرگے میں طالبات کے ہائی سکول کھولنے جیسے بین الاقوامی مطالبات سے متعلق پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔
اس تین روزہ علما کانفرنس (جرگے) کے اختتام پر 11 نکاتی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
کانفرنس کے شرکا جن میں مذہبی اور قبائلی قائدین شامل تھے، کی جانب سے افغان عبوری حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کی قیادت پر اعتماد کا اظہار، امریکہ سے منجمد اثاثوں کی بحالی اور افغانستان سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شرکا نے اقوام متحدہ، عالمی برادری، خطے اور باالخصوص اسلامی ممالک سے افغان عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔،
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجود نظام کا استحکام افغانستان سمیت پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔
کانفرنس کے شرکا نے افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کے حوالے سے افغان عبوری حکومت کے موقف کی تائید کی جبکہ دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’داعش ایک فتنہ گر تنظیم ہے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا شرعی طور پر ناجائز ہے جبکہ موجودہ نظام کے خلاف مسلح بغاوتوں کو روکنا عبوری حکومت پر واجب ہے۔‘
کانفرنس کے دوران شرکا کی جانب سے عبوری حکومت سے خواتین، اقلیتوں اور بچوں سمیت تمام افغانوں کو شرعی حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سب کے علاوہ شرکا نے افغانستان چھوڑ کر جانے والے لوگوں سے واپس آنے کی بھی اپیل کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقاریر میں کانفرنس کے چند شرکا نے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کا مسئلہ اٹھایا۔
طالبان کے نائب سربراہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ دنیا نے ان سے شمولیتی حکومت اور تعلیم کا مطالبہ کیا ہے، ان معاملات میں وقت لگے گا۔
خیال رہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے بھی جمعے کو اس علما کانفرنس میں شرکت کی تھی اور اس موقع پر اپنے ایک غیرمعمولی خطاب میں انہوں نے دنیا سے مطالبہ کیا تھا کہ ’ہمیں نہ بتائیں کہ افغانستان کو کیسے چلانا ہے۔‘
افغانستان کے سرکاری ریڈیو پر نشر ہونے والے ایک گھنٹہ طویل خطاب میں انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’دنیا ہمارے معاملات میں مداخلت کیوں کرتی ہے؟‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہبت اللہ اخونزادہ کا کہنا تھا کہ ’شرعی قانون ہی ایک کامیاب اسلامی ریاست کا واحد نمونہ ہے۔‘