ناروے کے شہر اوسلو کے مضافات میں قرآن کو نذر آتش کرنے کے بعد اسلام مخالف شدت پسند گروپ کے رہنما کی گاڑی کا پیچھا کرکے اسے ٹکر مار دی گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ناروے پولیس نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں اس گاڑی کا ڈرائیور بھی شامل ہے، جس پر لارس تھورسن کی گاڑی کو ٹکر مارنے کا الزام ہے۔
تھورسن شدت پسند اسلام مخالف گروپ ’سٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے‘ کے لیڈر ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ جس ایس یو وی (SUV) گاڑی کو ٹکر ماری گئی، اس میں سوار پانچ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کو ہسپتال لے جانا پڑا۔
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تھورسن اور دیگر کارکن اوسلو کے مضافاتی علاقے مورٹنسرڈ میں موجود ہیں، جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے۔
اس گروپ کے چند کارکنوں نے ایک چھوٹے سے چوراہے کے بیچ میں نذرآتش کیا گیا قرآن رکھ دیا اور ابتدائی طور پر مقامی لوگوں کو آگ بجھانے کے لیے قریب نہیں آنے دیا۔
تاہم بعدازاں وہاں ایک مشتعل ہجوم جمع ہو گیا، جس میں ایک خاتون بھی شامل تھیں، جنہوں نے نذرآتش کیے گئے قرآن کو اٹھا لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام مخالف گروپ کی گاڑی جلد ہی جائے وقوعہ سے نکلی، لیکن ایک مرسیڈیز نے کچھ ہی دیر بعد اسے پہلے ہلکی اور بعدازاں شدید ٹکر ماری، جس سے ایس یو ای گاڑی الٹ گئی۔
یہ سارا واقعہ پیچھے آنے والی ایک کار میں موجود ایک شخص نے ریکارڈ کیا۔
اس واقعے سے ایک ہفتے قبل ایک مسلح شخص نے اوسلو میں فائرنگ کرکے دو افراد کو قتل جبکہ 21 کو زخمی کردیا تھا۔
ناروے کے انتہائی دائیں بازو کے اسلام مخالف کارکنوں کی جانب سے حالیہ برسوں میں مسلمان اکثریت والے علاقوں میں قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سے قبل نومبر 2019 میں بھی ناروے کے شہر کریستیان سان میں ایک اسلام مخالف ریلی کے دوران دائیں بازو کے اسی شدت پسند گروپ ’سٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے‘ کی جانب سے ’قرآن کو نذرِ آتش‘ کیے جانے کی کوشش کی گئی تھی۔
16 نومبر 2019 کو پیش آنے والے اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا گیا کہ الیاس عمر نامی ایک مسلمان، تنظیم کے رکن لارس تھورسن پر اس وقت قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں، جب انہوں نے مقامی پولیس افسران کی جانب سے وارننگ کے باوجود قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی۔
اس واقعے کی پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی۔