پاکستان میں ان دنوں سیاحت عروج پر ہے اور اس کا اندازہ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز سے لگایا جا سکتا ہے۔
جن مقامات کی تصاویر یا ویڈیوز آپ نے زیادہ دیکھی ہوں گی ان میں وادی کاغان، ناران، ہنزہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لیکن ان سب مقامات میں سے سب سے زیادہ جس جگہ کا ذکر ہوتا ہے وہ ہے درہ بابو سر۔
درہ بابوسر سطح سمندر سے 13 ہزار 710 فٹ بلندی اور گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے سنگم پر واقع ہے۔
اس مقام تک جانے کے لیے چلاس زیرو پوائنٹ سے آگے تھک نالہ سے راستہ شروع ہوتا ہے اور ناران کاغان بھی درہ با بوسر کے ذریعے ملتے ہیں۔ ناران بابوسر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
درہ بابو سر خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کو ملاتا ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے بھی راستہ جاتا ہے۔
بابو سر اپنی برفیلی چوٹیوں کے لیے زیادہ مشہور ہے مگر یہاں ہر قسم کے جنگلات بلند و بالا درختوں کے ساتھ ہر قسم کی جڑی بوٹی اور انواع و اقسام کے پھول بھی پائے جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے بابوسر کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر دیامر فیاض اور اسسٹنٹ کمشنر چلاس حسین شاہ نے اپنی ذاتی کاوشوں اور خصوصی دلچسپی سے بابوسر کی خوبصورتی، رعنائی اور دلکش نظاروں کو دنیا کے سامنے لانے لیے کچھ خصوصی اقدامات شروع کیے ہیں جس میں سب سے اہم بابوسر کی اولڈ ٹریک پگڈنڈی کو بحال کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ضلعی انتظامیہ، محکمہ جنگلات اور مقامی یوتھ کی کمیٹی نے جنگلات بچاؤ مہم کے تحت ہر قسم کی کٹائی اور لکڑی لے جانے پر پابندی عائد کر دی ہے اور انتظامیہ کی طرف سے دفعہ 144 بھی نافذ ہے۔
بابوسر کاغان روڈ پر کمیونٹی پولیس مقامی رضاکار فورس کے نام سے 80 سے زائد نوجوان 24 گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔
بابوسر اولڈ ٹریک پگڈنڈی کی بحالی کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر کام شروع کروایا گیا ہے اور اب باقاعدہ سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے اسے کھول بھی دیا گیا ہے۔
ناران کاغان روڈ بننے کے بعد بابوسر کی اہمیت ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آنے لگے ہیں مگر ان کے لیے بابوسر ٹاپ کے علاؤہ ایسی اور کوئی خاص جگہ نہیں تھی جہاں سے وہ بابوسر کی دلکش، حسین وادیوں کا نظارہ کر سکیں۔
تاہم اب بابوسر اولڈ ٹریک پگڈنڈی کی دوبارہ بحالی سے نہ صرف بابوسر کی حسین وادیاں دنیا کے سامنے آئیں گی بلکہ مقامی صنعت گھریلوں دستکاریاں اور مقامی ثقافتی فنون کو فروغ ملے گا۔