خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایک لمبے عرصے بعد سرکاری سرپرستی میں گھوڑا گاڑی کی دوڑ کا روایتی کھیل منعقد کیا گیا، جسے سیالکوٹ کے ’قلندری‘ گھوڑے نے اپنے نام کرلیا۔
خیبر پختونخوا ڈائریکٹریٹ سپورٹس کی جانب سے منعقد ہونے والی دوڑ میں ملک بھر سے 50 گھوڑا گاڑی والوں نے حصہ لیا۔
مقابلہ جیتنے والے کوچوان جہانزیب نے بتایا کہ ماضی میں وہ اس قسم کی دوڑوں میں شریک ہوتے تھے لیکن یہ مقابلہ پہلی مرتبہ سرکاری سرپرستی میں منعقد ہوا۔
جہانزیب کے بتایا کہ گھوڑے پالنے اور گھوڑا گاڑیوں کے شوقین افراد اس قسم کی ریسوں میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور اس مقابلے کے لیے گھوڑوں کو مہینوں پہلے تیار کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق وہ چار گھوڑوں کو پالتے ہیں جو سیالکوٹ کے ہیں اور اس ریس کے لیے وہ ان گھوڑوں کو چھ ماہ سے تیار کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہانزیب سے جب پوچھا گیا کہ ملک میں پیٹرول مہنگا ہوگیا تو آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ تانگوں یا گھوڑا گاڑیوں پر دوبارہ سواری شروع کریں گے، تو ان کا کہنا تھا کہ لوگ شروع کریں یا نہ کریں لیکن تانگے ختم نہیں ہونے والے۔
ان کا کہنا تھا کہ تانگے اور گھوڑے پیغمر اسلام کے زمانے سے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ان کے دادا تانگہ چلاتے تھے، پھر والد اور وہ اور ان کے بعد ان کا بیٹا یہ شوق پالے گا۔
گھڑ دوڑ کی تاریخ
امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کی ویب سائٹ کے مطابق گھوڑا گاڑی کی ریسیں سات سو قبل مسیح میں یونانی دور میں شروع ہوئیں۔
ویب سائٹ کے مطابق یہ ریس اولمپکس میں سب سے خطرناک اور مشکل کھیلوں میں شمار ہوتی تھی جو ایک مخصوص جگہ میں کھیلی جاتی تھی۔
اسی وی سائٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس ریس میں 10 گھوڑا گاڑیاں بیک وقت ریس میں حصہ لیتے تھے اور اس کے لیے ایک خاص ٹرننگ پوائنٹ مقرر کیا جاتا تھا۔
گھوڑا گاڑی کی ریس کو 684 قبل مسیح میں باقاعدہ اولمپکس کا حصہ بنایا گیا تھا۔
گھوڑا گاڑیاں آج کل پاکستان میں سامان لے جانے کے لیے زیادہ تر استعمال ہوتی ہیں جبکہ ملک کے بعض دیہی علاقوں میں اب بھی اس کو بطور سواری استعمال کیا جاتا ہے۔