وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے پنجاب میں 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے پیر کو مفت بجلی کا اعلان کیا ہے۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران اپنی تین ماہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے حمزہ شہباز کا کہنا تھا صوبے میں گذشتہ چھ ماہ تک 100 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کا بل معاف کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں 100 یونٹ استعمال کرنے والے 44 لاکھ خاندان ہیں یعنی صوبے کے ساڑھے پانچ کروڑ عوام ماہانہ 100 یونٹ سے کم استعمال کرتے ہیں۔
’حکومت پچھلے چھ ماہ میں 100 یونٹ استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی فراہم کرے گی، آج سے پنجاب حکومت 100 یونٹ استعمال کرنے والوں کا خرچہ حکومت اٹھائے گی۔‘
وزیر اعلی پنجاب نے یہ بھی اعلان کیا کہ پنجاب حکومت مستحق افراد کو مفت میں سولر پینل بھی فراہم کرے گی تاکہ انہیں ہمیشہ کے لیے بجلی مفت مل سکے۔
’حکومت عوام کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر کام کررہی ہے، ہم اسپتالوں میں ادویات بھی مفت فراہم کررہے ہیں۔‘
حمزہ شہباز نے کہا کہ ’عہدے آتے رہتے ہیں جاتے رہتے ہیں نام لوگوں کو بھول جاتے ہیں اچھے کام یاد رہتے ہیں۔ لیکن آج میں سمجھتا ہوں کہ جو بات ہونی چاہیے وہ صحیح ہونی چاہیے۔ 74 سال بعد پاکستانی قوم ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں پر سیاست بچانے کا سوال نہیں ہے بلکہ ریاست کو بچانا ہے، غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسے عوام کودوبارہ سے ان کے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔‘
100 یونٹ میں آپ کیا کچھ چلا سکتے ہیں؟
لیسکو کے ایک سینئیر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایک کمرے کا گھر ہے اس میں پنکھا اور ایک ٹیوب لائٹ ہے۔ ایک پنکھا 80 واٹ کا اور ایک ٹیوب لائٹ 40 واٹ کی ہوتی ہے یہ ملا کر 120 واٹس ہو گئے۔ گرمیوں میں پنکھا 24 گھنٹے چلے گا اور ٹیوب لائٹ فرض کریں آٹھ گھنٹے جلے گی۔
’80 واٹ کا پنکھا 24 گھنٹے چلے گا تو وہ دن کے تقریباً دو یونٹ بنیں گے اور مہینے کے 60 یونٹ۔ ٹیوب لائٹ اگر وہ شام چھ بجے سے رات 10 بجے تک جلے گی تو یہ 10 یونٹ مہینے کے بنیں گے اور کل ملا کر وہ ایک مہینے میں 70 یونٹ خرچ کرے گا۔‘
لیسکو کے اہلکار کے مطابق: ’اگر اس صارف گھر میں فرج بھی ہے تو وہ تقریباً 60 سے 70 واٹس کا ہوگا اور اس کے چلنے کا ٹائم بھی زیادہ ہے تو وہ بھی مہینے کے تقریباً 60 یونٹس ہی بنیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ایک پنکھے اور ایک ٹیوب لائٹ کے علاوہ کچھ بھی اور چلے گا جیسے فرج یا استری تو آپ 100 یونٹس کراس کر جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ فرض کریں میرے گھر میں تین میٹر لگے ہوئے ہیں میرا لوڈ زیادہ ہے تو میں تینوں پر سو سو یونٹ چلاتا ہوں۔ اب میرے گھر میں فرج، استری اور ٹی وی بھی چلے گا لیکن میرے گھر میں بل کوئی نہیں آئے گا کیوں کہ حکومت یہ ہی نہیں جان سکے گی کہ یہ ایک فیملی چلا رہی ہے یا تین فیملیز چلا رہی ہیں۔
ایک نارمل گھر، دو تین کمروں کا اس میں آپ ٹیوب لائٹس لگا لیں پنکھے لگا لیں، فرج لگا لیں۔ بڑے آرام سے صارفین اس میں دھوکہ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے اس سے بجلی چوری کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جو تین میٹر چلا رہا ہے اس کے یونٹ اگر تھوڑے سے بھی بڑھ جاتے ہیں تو وہ میٹر ریڈر سے ساز باز کرے گا کہ وہ سو یونٹ سے کم دکھائے۔ اس طرح ایک تو وہ بجلی چوری کرے گا دوسرا وہ محکمے کو بل بھی نہیں دے گا اور ڈبل مزے لے گا۔
لیسکو کے اہلکار نے بتایا کہ جو ڈویژن ان کے ماتحت ہے وہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں ایک ایک گھر میں تین سے پانچ میٹر بھی لگے ہوئے ہیں۔ وہاں کم از کم ڈیڑھ لاکھ صارفین ہیں۔ 100 یونٹ سے کم والے تقریباً 30 سے 40 ہزار صارفین ہیں جو کہ 30 فیصد آبادی ہے۔
’ہماری پہلے چلتی تھی لائف لائن وہ صارفین جو 50 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتے تھے ان کو بجلی مفت دی جاتی تھی اب یہ لائف لائن کی لمٹ بڑھا رہے ہیں اسے 50 سے 100 پر لے جا رہے ہیں۔ میرے پاس 40 ہزار کے قریب صارفین ایسے ہوں گے جو 50 سے زیادہ اور 100 سے کم یونٹ کی بجلی استعمال کر رہے ہیں۔
’اس کا مطلب ہے کہ ڈیڑھ لاکھ میں سے 40 ہزار صارفین 100 کے اندر اندر ہیں تو آپ 30 فیصد لاگوں کو بجلی بالکل مفت دینے جارہے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ایک گھر میں تین میٹر چل رہے ہیں اور وہ صارف دراصل 100 سے زیادہ یونٹ استعمال کر رہا ہے۔‘
لیسکو کے افسر نے بتایا کہ اگر ان کے ادارے کی بات کریں تو نو لاکھ کے قریب صارفین جو ماہانہ 51 یونٹس استعمال کرتے ہیں۔
51 سے 100 یونٹ استعمال کرنے والے ساڑھے چار لاکھ صارفین ہیں۔
’اس سے آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ صرف لیسکو کے ساڑھے 13 لاکھ کنیکشنز کو مفت کرنے جارہے ہیں اور ان کے بل کم از کم 50 کروڑ کے قریب ہے۔ یعنی ہرمہینے آپ کو صرف لیسکو کمپنی میں 50 کروڑ کی سبسڈی دینی پڑے گی۔‘
دوسری جانب حکومت اس بات کا رونا بھی روتی دکھائی دیتی ہے کہ خزانے میں اتنے پیسے نہیں کہ آئی پی پیز کو دیے جائیں اور بجلی کی پیداوار کو بڑھا کر شارٹ فال کو کم کیا جائے تو ایسے میں ساڑھے پانچ کروڑ صارفین کے لیے بجلی مفت فراہم کرنا ممکن ہوگا؟
اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حمزہ شہباز نے اعلان کر تو دیا ہے لیکن ان کی تو ابھی اپنی پوزیشن واضع نہیں ہے۔ اس لیے یہ سیاسی بیان ہے۔
’جہاں تک آئی پی پیز کی ادائیگیوں کی بات ہے تو ایسا نہیں ہے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ پیسے ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں۔ وہ ایک جگہ سے نکالیں گے دوسری جگہ ڈال دیں گے۔ سوال اتنا ہے کہ وہ پیسے اپنے انتخابات کی مہم پر خرچنے ہیں یا آئی پی پیز کو دینے ہیں۔ یہ دراصل انتخابی مہم کا ٹیکٹک ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر بجلی معاف کرنی ہی تھی تو 200 یونٹ تک بجلی معاف کرتے کیوں کہ 100 یونٹ تو ایک پنکھا اور ایک لائٹ ہی چلا سکتے ہیں۔ یہ ایک ہاتھ سے دیتے ہیں تو دوسرے ہاتھ سے لیتے ہیں۔ یہاں اگر رلیف دیں گے تو کسی اور جگہ نیا ٹیکس لگا دیں گے۔‘
ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا تھا کہ پہلا کام تو حکومت کو یہ کرنا چاہیے تھا آئی پی پیز سے ان کی پروڈکشن خرید لیتے تاکہ سرکلر ڈیٹ ختم ہو اور پھراس پر فیصلہ کرے کہ کونسی آئی پی پیز وائبل ہیں اور کون سی نان وائبل ہیں اور نان وائبل کو ختم کریں اور نئی ٹیکنالوجیز سے بجلی پیدا کریں۔
’آپ جب آئی پی پیز پر انحصار کریں گے اور ان کے پاس گروی رہیں گے تو آپ جو مرضی کرلیں آپ مار بھی کھائیں گے اور پیسے بھی زیادہ دیں گے۔‘