ہائے میں قربان

عید قرباں پر خواتین بطور خاص فریج اور ریفریجریٹر کے تنگ دامن کو شیطان کی آنت بنانے میں جت جاتی ہیں تو دوسری طرف مرد حضرات گلی میں کھڑے دنبوں اور بکروں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تول رہے ہوتے ہیں۔

22 جولائی 2020 کو اسلام آباد کے ایک فارم پر لی گئی اس تصویر میں ملازمین عید پر فروخت کیے جانے والے جانوروں پر نشان لگا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قربانی کے جانوروں اور فریج کا اگرچہ چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن عید پر فریج کو اپنا دامن مزید وسیع کرنا پڑتا ہے۔

خواتین بطور خاص فریج اور ریفریجریٹر کے تنگ دامن کو شیطان کی آنت بنانے میں جت جاتی ہیں تو دوسری طرف مرد حضرات گلی میں کھڑے دنبوں اور بکروں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تول رہے ہوتے ہیں کہ کسی کا وزن ہمارے شیر جوان سے کم تو نہیں۔

اہل محلہ گواہ ہیں کہ نقص ہمیشہ پڑوسیوں کے جانور میں نظر آئے گا۔ ’دانت دوبارہ چیک کروا لیجیے، ہمیں تو پورے نہیں لگتے، آپ کا بکرا موٹا نہیں، پیٹ کی ریح کی وجہ سے بڑا دکھائی دے رہا ہے، اس بار چربی بہت نکلے گی آپ کے بکرے کی اور گوشت سے بو بھی آئے گی‘ جیسے جملے ہر جانور کی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ادا کیے جاتے ہیں۔ 

ہفتہ پہلے لائے گئے جانور باجماعت گلی میں باندھ دیے جاتے ہیں اور کھونٹے سے بندھے ہر بیل یا اونٹ کے پاس پورا خاندن چارپائیاں اور کرسیاں رکھ کر براجمان ہوجاتا ہے۔

جن کو جگہ نہیں ملتی وہ دیواروں، گٹروں اور نالیوں پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حفاظت کے خیال سے گھر کے ایک بابا جی تو تہہ بند باندھ کر بیل کے ساتھ اپنا بستر لگا لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے ہی پیڈسٹل فین چل رہا ہے۔

صبح سویرے گھر کا بڑا بچہ جگا کر کان میں سرگوشی کرتا ہے کہ اباجی بیل کی خیر ہے آپ اپنی حفاظت کریں۔ 

لوگ شیر خوار بچوں کو گلی میں بندھے جانور یوں دکھانے چل پڑتے ہیں کہ جیسے بکرے نہیں چڑیا گھر کے ہرن اور شیر ہوں۔

بچے ہاتھ لگاتے ہوئے جھجھکتے ہیں لیکن گھر والے ان کو زبردستی کسی جوان بیل پر یوں بٹھا چھوڑتے ہیں جیسے نتھیا گلی کا گھوڑا ہو۔

کچھ دیر بعد سر پر ہاتھ پھیرنے کے چکر میں بچے کے ابا حضور بیل سے ٹکر اور بکرے سے لات کھا کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ 

جس گلی میں جانور بندھے ہوں وہاں سے خواتین کے گزرنے کا بھی الگ ہی منظر ہوتا ہے۔ اچھا خاصا چلتے چلتے گلی کے نکڑ پر کھڑی ہوجائیں گی جیسے زندگی میں گائے یا بکرا نہ دیکھا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اچھی خاصی جگالی کرتی گائے کے پاس سے بھی چیخ مار کر گزریں گی کہ وہ بدک کر پگہہ تڑوا لیتی ہے۔

احتیاط پسند اتنی ہیں کہ بکرے کے مالک سے کنفرم کرکے گزرتی ہیں کہ ’بھائی یہ مارتا تو نہیں ہے۔‘

تاریخ گواہ ہے وہی بکرا پلٹ کر ٹکر مارتا ہے جس کی شریف النفسی کا وہ سرٹیفکیٹ لے چکی ہوتی ہیں۔

ہر گھر میں ایک آدھ بسیار خور یا بوٹیوں کا شوقین ضرور موجود ہوتا ہے۔ خدا خدا کر کے قربانی کا دن آتا ہے، گوشت بنتا ہے اور گھر کا وہی فرد جو سال سے ڈٹ کر کھانے کا منتظر ہوتا ہے اسے پہلے ہی روز متلی، کھٹی ڈکاریں اور دست لگ جاتے ہیں۔

چاہے غریب نے ایک بوٹی بھی حلق سے نہ اتاری ہو لیکن گھر سے ’تھوڑا کھانا تھا نہ‘ کا طعنہ ضرور ملتا ہے۔

داڑھیں گوشت کا ذائقہ بھولتی ہیں تو شکم ٹھیک ہونے لگتا ہے، یہ خیال ہی خوش کن ہوتا ہے کہ بیماری ختم ہوگئی لیکن تب تک گوشت بھی ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ 

محلوں اور گلیوں میں گوشت مانگنے والوں کی پوری کھیپ اترتی ہے۔ اس دن خانہ بدوشوں کو اپنے بچوں کی کثرت پر فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہر بچہ پانچ سے 10 کلو گوشت سمیٹ لاتا ہے۔ ایک ہی گھر سے ایک ہی گھر کے فقیر گوشت لے رہے ہوں تو ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں تاکہ گوشت زیادہ ملے۔

ان کے ہاتھ میں پاؤ بھر گوشت ہی ہوتا ہے لیکن اگر باہر نکل کے دیکھیں تو آپ کے بیل کا گوشت کم اور ان کی ریڑھی کا زیادہ نکلتا ہے۔

ان کو دعاؤں کے زور پہ گوشت نہ ملے تو بدعاؤں کے زور پر اکٹھا کر لیتے ہیں، جس گھر سے ان کو خاطر خواہ مقدار ہاتھ نہ لگے ان کو لازمی بتا کر جاتے ہیں کہ آپ کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔

کچھ تو اس قدر اتاولے ہوتے ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا قربانی سے پہلے ہی ان کو ذبح کرکے ہاتھ میں تھما دیں۔

چھوٹے اور بڑے گوشت کی شناخت کا مسئلہ سب سے گھمبیر ہوتا ہے۔ سیانی خواتین شاپروں کے ساتھ رنگ برنگے دھاگے باندھ کر فریزر میں جما دیتی ہیں تاکہ پکاتے وقت آسانی رہے۔

اگلے روز ہی بھول جاتی ہیں کہ نیلا دھاگا بیف کے شاپر پر باندھا تھا یا مٹن پر۔ یوں اندازے سے گھر میں بیف پلاؤ بنتا ہے اگرچہ نسلاً اور اصلاً وہ مٹن پلاؤ ہی ہوتا ہے ۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ