کراچی کو حسن دینے والی سلاوٹ برادری کی پہچان خطرے میں

کراچی کی مشہور عمارتوں کو حسن بخشنے والا خاندان جس کا ہنر اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

سلاوٹ خاندان کے ہاتھوں بنا ایک دروازہ (شیما صدیقی)

پرانی کراچی کی لال پیلی عمارتیں ایک انوکھی خوبصورتی لیے ہوئے ہیں جو آج بھی دیکھنے والوں کو بیتے دنوں کی یاد دلاتی ہیں۔ وہ دن تو گزر گئے، مگر ان کی کہانیاں ان عمارتوں کے صفحوں پر آج بھی زندہ ہیں۔

چاہے وہ خالق دینا ہال ہو یا پھر ہندو جم خانے کی پر شکوہ عمارت، اولڈ ٹاؤن میں مارکیٹیں ہوں، یا ڈینسو ہال جیسا کمیونٹی سینٹر۔ جہانگیر کوٹھاری پریڈ کلفٹن کی ہی نہیں بلکہ کراچی کی پہچان ہے۔ جب بھی ان عمارتوں پر نظر پڑتی ہے، آپ ان کے معماروں کو داد دیے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ سکتے۔

کبھی سوچا کہ ان عمارتوں پر سنگ تراشی اور کاشی گری کرنے والے ہاتھ کن لوگوں کے تھے، ایسا ہنر کہ سخت سے سخت پتھر کو تراش خراش کر شاہکار بنا دیا؟ یہ ہنر مند لوگ کراچی کے علاقے گزدر آباد کے قدیم باسی ہیں۔ پتھر پر کام کرنے والے یہ لوگ ’سلاوٹ‘ کہلاتے ہیں۔ عمارتی پتھر کو تراشنے کے ساتھ ان کی پہچان سل بٹے کا کام بھی ہے۔ ہاشم گزدر، مشتاق گزدر، فنکار لیاقت سولجر اور ہوتی خاندان اس برادری کے ممتاز نام ہیں۔

قصہ مختصر کہ ڈیڑھ صدی پرانا طرز تعمیر اپنا دور پورا کر چکا۔ لہٰذا ان ہنرمند لوگوں کی کہانی بھی اب معدوم ہونے کو ہے۔ اس ختم ہوتے ہنر کی کہانی سنا رہے ہیں 80 سالہ رفیق چوہان۔ وہ 1942 میں کراچی میں پیدا ہوئے، اور انہیں یہ ہنر ان کے والد سے ورثے میں ملا۔

رفیق بتاتے ہیں کہ’ ہمارا تعلق بھارتی شہر جیسلمیر سے ہے۔ میروں نے ہمارے کام کو دیکھتے ہوئے سندھ میں بلایا۔ اور ہم پونے دو صدی پہلے کراچی اور حیدر آباد میں آ کر آبسے۔ ہماری پوری برادری سنگ تراشی کا کام کرتی ہے۔ جودھ پور کا پتھر ہو یا جیسلمیر کا، یا پھر یہاں کراچی کا پتھر ہو، ہم سخت سے سخت پتھر کو اپنی چھینی سے ایسی ضرب لگاتے ہیں کہ جھروکے ہوں یا پھول بوٹے، دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کراچی کی بلدیہ کی عمارت ہمارے آبا و اجداد کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہے۔ اس میں استعمال ہونے والا جودھ پور کا پتھر سب سے سخت ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس پتھر پر کان سے نکلتے ہی کام شروع کر دیا جاتا ہے کیونکہ دس بیس سال گزرنے کے بعد اس پر کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یعنی جتنی مدت گزرتی ہے یہ سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے۔‘

 رفیق نے بتایا کہ انہوں نے ساتویں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی، پھر والد کے ساتھ لگ گئے۔ والد کا جلد ہی انتقال ہو گیا اس لیے باقاعدہ کام خالو سے سیکھا۔

’ہمارا صدیوں سے چلتا ہنر اب معدوم ہونے کو ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری یہ پہچان اگلی نسل تک منتقل نہیں ہو سکے گی، کیونکہ آگے یہ ہنر کوئی سیکھنے والا نہیں۔ چند شوقین لوگ ہی رہ گئے ہیں جو اس کی اہمیت سے واقف ہیں۔‘

رفیق کہتے ہیں کہ ’اگر اب بھی ان پرانی عمارتوں میں مرمت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہو تو ہمیں بلایا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو نے ہمیں سکھر کے سادھو بیلا کے مندر کی مرمت کے لیے بلایا تھا۔ ہم مندر دیکھ کر بھی آئے لیکن شاید پھر انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور لیے یہ کام نہیں کرایا گیا۔‘

 رفیق عمر بتاتے ہیں کہ ’کراچی کی پرانی عمارتوں میں دو طرح کا پتھر استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر عمارتوں میں مقامی پیلا پتھر جیسے گزری کا پتھر کہا جاتا ہے۔ یہ پتھر کے پی ٹی بلڈنگ، مہٹہ پیلس اورقائد اعظم ہاؤس یا سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں استعمال ہوا ہے۔ دوسرا جودھ پور کا لال پتھر، جیسے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی عمارت۔ بلدیہ کراچی کی عمارت کی خوبصورتی کو دیکھیں، اسے سلاوٹ برادری نے جودھ پور کے لال پتھر سے تراشا ہے۔‘

وقت بدلا طرز تعمیر بھی بدلا

 کیونکہ نیا زمانہ ہے اور نیا طرز تعمیر، لہٰذا کم سے کم جگہ پر ڈبہ نما گھر شہر کراچی کو نیا انداز دے رہے ہیں۔ طرز تعمیر کے بدلنے سے سلاوٹ برادری کا کام بھی متاثر ہوا ہے، بلکہ اب سل بٹے کا کام بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ کیونکہ سل بٹے پر چٹنی اور مصالحے پیسنا بھی وقت کے ساتھ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا اب سلوں پر چھینی چلانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

ہماری نسل نے تو گھروں میں سل بٹہ دیکھ لیا تھا لیکن نئی نسل ہاون دستے اور سل بٹے کی تصاویر ہی دیکھ سکے گی، یعنی اب سلاوٹ برادری مزید اپنے آبائی کام سے پیچھے ہٹ جائے گی۔

رفیق چوہان کراچی کے قدیم علاقے رنچھوڑ لائن میں دکان چلاتے ہیں، البتہ اب زیادہ کام ان کا بیٹا سنبھالتا ہے۔

رفیق نے پہلو بدلتے ہوئے بتایا کہ ’پچھلی نسل میں شوق تھا، اب نوجوان یہ کام نہیں سیکھتے۔ اس کو سیکھنے کے لیے بہت وقت لگتا ہے اس لیے نئی نسل ا س سے کتراتی ہے۔ یہ مشینی کام تو ہے نہیں بلکہ یہ محنت طلب کام ہے، دماغ لگانا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے ہر چیز کی سمجھ چاہیے۔ تب کہیں جا کر چھینی پتھر پر ایسی پڑتی ہے کہ سخت سے سخت پتھر اپنی شکل نکالتا چلا جاتا ہے اور آخر میں ایک شاہکار آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ مسلسل محنت اور یکسوئی اس کام کو آپ کی پہچان بنا دیتی ہے۔ کیونکہ اب یہ کام سمجھنے والے رہے، نا تیز تر طرز تعمیر انہیں اتنا وقت دیتی ہے کہ مہینے بھر کا کام ہفتے میں کر ڈالیں۔ ہاتھ کا کام اب مشنیوں پر منتقل ہو گیا ہے۔‘

رفیق نے اپنی دکان پر رکھے ہوئے مختلف پتھر سے تراشے ڈیزائن دکھائے۔ جس میں پیلا پتھر کم اور مختلف رنگوں والے ماربل کے سلپ اور جالیاں رکھیں ہوئی تھیں۔ رفیق کا کہنا ہے کہ ’اب عمارتوں کی تعمیر میں زیادہ تر پشاور کا سفید اور حب کا، کالا پتھر استعمال ہو رہا ہے اور ماربل کی کٹنگ میں وہ محنت اور کاری گری نہیں ہوتی۔ بس مشین سے کٹوایا اور لا کر لگا دیا جبکہ پیلے پتھر پر نقش کرنا، مشین جیسا نہیں۔ یہ محنت، فنکاری، دماغ اور ہاتھوں کا کام ہے۔ پھول پتیاں بنانا، گھر کے پلر کاٹنا اور بڑے بڑے پتھروں کو کاٹ کر تراشنا آسان نہیں۔ جلدی میں یہ کام ہوتا نہیں۔ لوگوں کو بھی جلدی رہتی ہے۔ اور کاریگر بھی محنت سے جی چراتے ہیں۔ سمجھیں اب ہمارا کام ختم ہی ہو چکا ہے۔ جب تک پرانی عمارتیں ہیں۔ کچھ کام چل رہا ہے۔ یہ عمارتیں ختم تو ہمارا یہ کلچر بھی ختم ہو جائے گا۔‘

نئی نسل میں اس ہنر کو منتقل کرنے کی اپنی سی کوشش

رفیق کہتے ہیں کہ ’سات سے آٹھ نسلیں ہو گئیں اس کام میں۔ اب اس کا م کا کوئی مستقبل نہیں۔ اب وہ نہ پتھر ہے اور نہ ہی وہ کاریگر، نہ سیکھنے والے۔ ہمارے بچے بھی اب اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اب ایک ہی بیٹا اس کام میں ہے۔ اب ہم خود کام نہ ملنے کی وجہ سے دوسرے کاموں میں آ گئے ہیں۔‘

رفیق چوہان کے بیٹے فہیم سلاوٹ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ سکول کے بعد ابّا کے پاس آ جاتے تھے۔ کبھی کام میں دل لگتا اور کبھی بھاگ جاتے۔ ’ابّا نے ہاتھ میں چھینی دی۔ آہستہ آہستہ کام میں مزہ آنے لگا۔ پیلے پتھر کر کام بہت کم اور وہ بھی مشین سے کاٹ لیا۔ جبکہ ماربل اور ٹائلز پر کام زیادہ ہو رہا ہے۔ ابّا بتاتے ہیں کہ پہلے بہت کام تھا، کاریگر کم پڑ جاتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے کام کی نوعیت بدل گی ہے۔ آج کل ماربل کے کالم بن رہے ہیں۔ محرابیں اور بیٹھنے کے لیے سیٹیں بن جاتی ہیں۔ مسجدوں میں کام ہو رہا ہے۔ جیسے محرابیں اور منبر وغیرہ۔ ابتدائی کام ، جیسے ڈرافٹ اور ڈیزائن وغیرہ میں بھی مشین آ گئی ہے، کیونکہ کتابت مشین سے بن جاتی ہے اور ہاتھ سے بھی لیکن جہاں کام کی خوبصورتی ہو وہاں ہاتھ کا کام چلے گا۔ خاص کر باریک کام کے لیے ہاتھ سے کتابت کرنی پڑتی ہے۔‘

انہوں نے ایک ماربل کی پٹی دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’ماربل پر ایک طرف مشین سے کام ہوتا ہے، لیکن یہ جو پھول بوٹے بنتے ہیں وہ ہاتھ سے بھی، اور مشین سے بھی بنائے جاتے ہیں، لیکن ہم نے یہاں باریک کام ہاتھ سے کیا ہے۔ ہاتھ کے کام سے ہی خوبصورتی آتی ہے۔ یہ آیت الکرسی کا طغرہ تین دن میں تیار ہوا ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ڈرائنگ سے ہی ہمارے کام کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ڈیزائن کاغذ پر اتار کر سٹینسل تیار کرتے ہیں اور اگر کوئی آیت کو پتھر پر تراشنا ہو تو پہلے خطاطی کی جاتی ہے اور یہ ہی اس کام کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد مختلف چھینیوں سے پتھر تراشتے ہیں۔‘

فہیم نے بتایا کہ وہ عربی، اردو، سندھی اور گجراتی خطاطی کر لیتے ہیں۔ وہ زور دیتے ہیں کہ کراچی میں جتنی بھی قدیم عمارتیں ہیں، وہ سب مقامی پتھر سے بنیں ہیں۔ یہ اسی زمین کا پتھر ہے اور یہ ہی اس کی خوبصورتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ حکومت کا کام ہے کہ جتنی بھی پرانی عمارتیں ہیں وہ اس کی حفاظت کرے اور اس تاریخی ورثے کو سنبھال کر رکھے، تاکہ سندھ اور کراچی کا ورثہ محفوظ رہے۔ یہ ختم ہو گیا تو سندھ کا ورثہ مٹ جائے گا۔ اب نہ کوئی سیکھنے والا ہے نہ ہی کام رہ گیا ہے۔ ہر طرف ماربل ہی ماربل ہے۔

’ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ پرانی عمارتوں کی حفاظت کے لیے ایک بورڈ بنائے۔ تاکہ ان عمارتوں کی مرمت ہوتی رہے اور یہ عمارتیں قائم و دائم رہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ