وفاقی وزیر ماحولیات شیری رحمٰن نے بدھ کو کہا کہ 14 جون سے لے کراب تک مون سون کی بارشوں کے دوران ملک بھر میں 77 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 39 اموات صرف بلوچستان سے ہیں۔
شیری رحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ماحولیاتی بحران کا شکار ہے اور یہ مون سون بارشیں بھی اسی کا حصہ ہیں۔ ’ہمارا ملک ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں چھٹےنمبر پر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بار مون سون کی بارشیں ’معمول سے 87 فیصد زیادہ ہیں۔‘
وفاقی وزیر ماحولیات نے مزید کہا کہ برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات پہلے 16 ہوتے تھے مگر اس بار 26 رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ دنیا کے بڑے برفانی پہاڑ پاکستان میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مون سون کی بارشوں کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ کوئٹہ میں اربن فلڈنگ ہوئی اور اس کے علاوہ تربت، پسنی میں زیادہ پانی جمع ہو گیا ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ محکمہ موسمیات اور دوسرے ادارے بھی بارشوں کے حوالے سے پیش گوئی جاری کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ احتیاط کریں۔
انہوں نے کہا: ’ملک میں بارشوں کے حوالے سے یہ صورت حال 30 سال بعد سامنے آئی ہے۔ رواں ہفتے شدید بارشوں کا الرٹ جاری ہوا ہے۔ مون سون کی بارشوں کا اثر پنجاب پر بھی پڑے گا۔ ‘
شیری رحمٰن نے بتایا کہ اس بار معمول سے زیادہ بارش سندھ میں اور بلوچستان میں ہوئی ہیں۔
’موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پالیسی بنانی ہوگی اور ہمیں مشکل فیصلے بھی کرنے پڑیں گے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مستقبل میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے۔ جس کو وہ سب سے اہم مسئلہ سمجھتی ہیں۔ جس کے لیے ملک کو پانی کو ذخیرہ کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ موجودہ بارشوں کا سلسلہ 29 جون سے شروع ہوا اور حکومت نے تین ہفتے قبل اس حوالے سے وارننگ جاری کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ افراد کی امداد کے لیے پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہر صوبے میں کام کررہی ہیں۔ اگر وفاق سے بھی مدد کی ضرورت ہوئی تو بھی وہ کی جائے گی۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات کے مطابق پانچ جولائی سے سات جولائی تک بلوچستان کے علاقے ژوب، زیارت، لورالائی، کوئٹہ، قلات، خضدار، لسبیلہ، نصیرآباد، سبی، پنجگور، تربت، گوادر، سمیت دیگر علاقوں میں آندھی تیز ہواؤں اور بارش متوقع ہے۔
اس دوران محکمہ موسمیات نے خضدار، نصیرآباد، گوادر، آواران، بارکھان، بولان اور کوہلو کے مقامی ندی نالوں مین طغیانی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارش ہوئی۔ جس سے قلعہ سیف اللہ کے خسنوب علاقے میں متعدد افراد کے پانی میں بہہ جانے کی اطلاع ہے۔ سماجی کارکن اختر خان نے بتایا کہ پانی کے باعث علاقے تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قلعہ سیف اللہ میں بارشوں کے باعث متعدد گھر اور دیواریں گری ہیں اور سیلاب کی کیفیت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کےعلاوہ لورالائی کے علاقے پٹھان کوٹ میں بھی پانچ افراد کے پانی میں بہہ جانے کی خبر ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک شخص کو یہ کہتے دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کے گھر کے پانچ افراد کو پانی بہا کے ساتھ لے گیا ہے۔
کوئٹہ میں گذشتہ دنوں کے سیلابی ریلوں نے سریاب کے علاقے میں تباہی مچائی اور پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق سیلابی ریلوں سے 70 گھر مکمل تباہ اور 25 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
ادھر سب سے زیادہ متاثرہ علاقے کوئٹہ کا مشرقی بائی پاس رہا ہے۔ جہاں پر کوہ مراد سے آنے والے سیلابی ریلوں نے نقصان پہچنایا۔
سماجی کارکن عبدالرزاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیلابی ریلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
عبدالرزاق نے بتایا کہ یہاں پر رہائشی گھروں کےعلاوہ مویشی منڈی بھی ہے۔ جہاں ایک شخص نے بتایا کہ بارشوں کا پانی اس کی ساڑھے چار سو سے زائد بھیڑ بکریوں کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔
امداد کے ’منتظر‘ شہری
کوئٹہ میں سنگین صورت حال کے باعث ریلیف کمشنر پی ڈی ایم اے کی طرف سے جاری نوٹفکیشن کے مطابق شہر میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
تاہم جب اس حوالے سے سریاب کے علاقے کلی شاہنواز کے سماجی کارکن نبی بخش جتک سے رابطہ کرکے پوچھا گیا کہ ان کے علاقے میں کیا تباہی ہوئی ہے اور اب تک کیا ریلیف ملا ہے۔
نبی بخش جتک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارے کلی کے آس پاس تقریباً سو کے قریب گھر مکمل اور جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جن کے مکین اس وقت امداد اور راشن کے منتظر ہیں۔ لیکن ابھی ان کو کوئی بھی ریلیف کا سامان اور راشن فراہم نہیں کیا گیا۔‘
دوسری جانب مشرقی بائی پاس کے سماجی ورکر عبدالرزاق نے بتایا کہ ان کے علاقے میں سیلابی ریلوں سے تقریباً 150 کےقریب گھر متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں چند گھروں میں کچھ سامان فراہم کیا گیا۔ تاہم اکثر لوگ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی امداد کے منتظر ہیں۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد شہر میں امداد اور لوگوں کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے جب صوبائی ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو کچھ وقت دیا جائے۔ تاہم بعد میں فون پر رابطہ کرنے پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔