ریلیف کمشنر پرووینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے مطابق بارشوں کے باعث کوئٹہ کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
ملک بھر میں مون سون کی بارشوں اور ندی نالوں میں طغیانی کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی بارش کے بعد سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا۔
پرووینشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے بتایا کوئٹہ میں پیر سے شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث بچی سمیت آٹھ افراد جان سے گئے اور 13 زخمی ہوچکے ہیں۔
بارشوں سے مچنے والی تباہی کے پیش نظر آج ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر پاکستان) کی ٹیم نے کوئٹہ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی کاموں کا جائزہ لیا۔
پی ڈی ایم اے نے حالیہ جاری بیان میں بتایا کہ چار جولائی کو خروٹ آباد ڈیم میں ایک بچی ڈوب گئی تھی جس کی لاش آج نکال لی گئی۔ جبکہ مشرقی بائی پاس پشتون ٹاؤن ڈیم سے ایک شخص کی لاش ایدھی رضاکاروں نے نکال لی ہے۔
اس طرح دو دنوں کے دوران آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔
پیر کو کوئٹہ میں شدید گرمی تھی اور لوگ اس سے پریشان تھے۔ اس دوران سہ پہر کو جب بادل آئے اور بارش شروع ہوئی تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ بارش شدت اختیار کر جائے گی۔
امدادی کارروائیاں
کوئٹہ میں گذشتہ روز کی بارش کے بعد امدادی کاموں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ گذشتہ شب ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور ایس ایس پی آپریشن نے کلی گوہر آباد سریاب میں بارش سے متاثرہ 40 خاندانوں کو عارضی طور پر محفوظ مقام پر منتقل کردیا تھا۔
ضلعی انتظامیہ کوئٹہ نے حالیہ بارشوں کے پیش نظر ایمرجنسی کنٹرول روم قائم کردیا ہے۔ جو 24 گھنٹے کام کرے گا۔
انتظامیہ نے کہا کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے عوام سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ایمرجنسی کنٹرول روم سے رابطہ کریں۔
ادھر ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر پاکستان) کے ڈی جی عبدالباری بڑیچ نے کوئٹہ کے علاقے سریاب میں متاثرہ جگہوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیا۔
عبدالباری بڑیچ نے بتایا: ’پہلے ہم بے گھر افراد کی رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کریں گے۔ ان کو سرکاری عمارتوں میں منتقل کریں گے۔ ‘
ادھر سیلاب کے دوران امدادی کام کرنے والے کلی عمر کے سماجی ورکر کبیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی تیز بارش اپنے علاقے میں نہیں دیکھی۔
کبیر کہتے ہیں انہوں نے کلی کے علاقے کا جائزہ لیا تو ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور کئی گھروں کی دیواریں گر چکی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو مدد کی ضرورت تھی ان کی مدد کی اور پانی کی نکاسی میں بھی ہر ممکنہ مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ قریب ہی سڑک پر ایک بکرا منڈی قائم کی گئی تھی۔ جس کے لیے ٹینٹ وغیرہ لگے تھے وہ سب گر چکے تھے اور لوگ اپنے مال مویشی وہاں سے نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔
انہوں نے بتایا: ’جن گھروں کی دیواریں اور چھتیں محفوظ رہیں ان میں پانی کے جمع ہونے سے سامان خراب ہوگیا تھا۔‘
’گھر رہنے کے قابل نہیں رہا‘
جب بارش موسلادھار ہوگئی تو شہرکی سڑکوں پر بھی پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔ کلی عمر کے رہائشی مکینک شیر احمد کہتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد گیراج سے باہر نکل کر بارش کو دیکھا تو انہیں لگا کہ یہ بارش معمول کی نہیں ہے۔ انہیں فوراً اپنے گھر سے گزرنے والے برساتی پانی کے نالےکا خیال آیا۔
جب انہوں نے گھر والوں سے رابطہ کیا تو والد نے بتایا کہ صورت حال سنگین ہے۔
شیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ والد کے بقول پانی بہت زیادہ ہےاور گھر سے باہر بھی اس کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔
شیراحمد کہتے ہیں کہ جب وہ گھر کےقریب پہنچے تو دیکھا کہ پانی تو سیلاب کی مانند بہہ رہا ہے۔ ’ہم نے گاڑی ایک دیوار کے قریب کھڑی کرکے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں دیکھا کہ گھر پانی میں ڈوب چکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم نے پانی کو نکالنے اور راستہ دینےکی کوشش کی لیکن پانی میں مسلسل اضافےاور اس کے دباؤ کے باعث ہم ناکام رہے۔ اس دوران میں نےآواز سنی کہ جیسے کوئی چیز ٹوٹ رہی ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیراحمد نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ پانی کے دباؤ نے گھر کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دیں اور ایک کمرے میں پانی نے ایک دیوار منہدم کردی۔ ان کے بقول انہوں نے صرف اتنا کیا کہ بہت کوششوں کے بعد پانی کو راستہ دیا اور گھر والوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔
شیر احمد کو دوسرا صدمہ اس وقت پہنچا جہاں انہوں نے گاڑی کھڑی کی تھی وہ دیوار گاڑی پر گر گئی تھی اور اس کو شدید نقصان پہنچایا۔
شیراحمد نے اس بات پرشکر ادا کیا کہ بارش اور شدید سیلابی ریلے نے کوئی جانی نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن ان کا گھر اب اس قابل نہیں کہ اس میں رہائش کی جاسکے کیوںکہ دیواروں میں دراڑیں پڑنے سے یہ کسی بھی وقت منہدم ہوسکتا ہے۔
’دس سال قبل ایسی بارش ہوئی تھی‘
کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا اسی علاقے کے رہائشی عبدالغنی کو بھی پیش آیا۔
انہوں نے انڈپیینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 10 سال قبل بھی ایسا ہی پانی یہاں آیا تھا۔ لیکن اس دفعہ جوبارش ہوئی اس کی شدت اور مقدار بہت زیادہ تھی۔
عبدالغنی نے کہا، ’میری ہمت جواب دے گئی اور میں گھر میں موجود پانی کی سطح مسلسل بلند ہوتا دیکھ رہا تھا۔ جس سے گھر کا سارا سامان بھی خراب ہوگیا۔‘
غنی نے بتایا: ’بعد میں دوسرے لوگ مدد کو آگئے اور ہم نے کوشش کی کہ پانی کو راستہ دیں۔ جس کے لیے ہمیں ایک دیوار کوگرانا پڑا۔ جس سے پانی کو راستہ مل گیا۔‘
اس دوران گھر میں پانی سے غنی کے گھر کے مکین کھلے آسمان تلے ساری رات بیٹھے رہے اور ان کو خوراک سمیت دیگراشیا کی قلت کا سامنا رہا۔ جبکہ علاقہ مکین اور غنی خود پانی نکالنے میں مصروف رہے۔
غنی نے بتایا کہ پانی کے نکل جانے کے باعث آج جب انہوں نے گھر کا سامان باہر نکالا تو دیکھا کہ گھرمیں کوئی چیز محفوظ نہیں رہی سب کچھ پانی کی نذر ہوگیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں بارشوں کے باعث پھنسے چار بچوں کو ریسکیو ٹیم نے بحفاظت نکال لیا۔ چاروں بچے بارش میں کھیل رہے تھے اور پانی کے زور کے باعث کورنگ نالے میں پھسل کرگر گئے تھے۔