تباہ شدہ گھر کے ملبے سے رخصت ہوتی فلسطینی دلہن

ربیحہ رجبی کے بقول: ’ہمارے اور بھی منصوبے تھے لیکن مکانات گرائے جانے کی کارروائی اور ہمارے مشکل حالات زندگی کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔‘

22  سالہ دلہن نے بتایا کہ وہ کم عمری میں بیت المقدس کے دوسرے حصے سے عین اللوزا کے قریبی علاقے میں منتقل ہوئی تھیں (روئٹرز سکرین گریب)

فلسطینی خاتون ربیحہ رجبی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انہیں مقبوضہ مشرقی بیت القدس میں واقع اپنے گھر کے ملبے پر اپنی شادی کی تقریبات کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ ان کا گھر اسرائیلی حکام نے تباہ کیا۔

فسلطین کے روایتی عرعوسی جوڑے میں ملبوس اور مہندی لگے ہاتھوں کے ساتھ گھر کے ملبے پر کھڑی رجبی کا کہنا تھا: ’اس سے پہلے کہ کوئی چیز ہمارے گھر کو آ کر لگتی اس نے ہمارے دلوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ہمارا گھر تھا، ہمارا خواب تھا، ہماری یادیں تھیں۔‘

22  سالہ دلہن نے بتایا کہ وہ کم عمری میں بیت المقدس کے دوسرے حصے سے عین اللوزا کے قریبی علاقے میں منتقل ہوئی تھیں۔ ان کے خاندان کو کئی سالوں میں کئی بار مکان گرانے کا حکم دیا گیا جس سے انہیں پریشانی ہوئی۔

عرب روایت میں شادی کے دن دولہے کا خاندان دلہن کو اس گھر میں خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچتا ہے جہاں وہ پلی بڑھی ہو۔ یہ جذباتی تقریب اس نئی زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ جو وہ شروع کرنے والی ہوتی ہے۔

ربیحہ رجبی کے بقول: ’ہمارے اور بھی منصوبے تھے لیکن مکانات گرائے جانے کی کارروائی اور ہمارے مشکل حالات زندگی کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔‘

2009  کے بعد سے جب اقوام متحدہ نے اس فلسطینیوں کے مکانات گرانے کی کارروائی کو دستاویزی شکل دینا شروع کی، تب سے مشرقی بیت القدمس میں تین ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ اسرائیلی حکام نے ان کے مکانات کو مسمار کر دیا ہے یا مالکان کو مجبور کیا کہ وہ مکان گرا دیں۔

مکان گرانے کے احکامات کی وجہ سے مزید ہزاروں افراد بے گھر ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مسئلہ مشرقی بیت المقدس پر کئی دہائیوں سے جاری تنازعے کے سب سے حساس علاقوں کے مسائل میں سے ایک ہے۔ اسرائیلی فوج نے 1967 میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں اس اسرائیل میں شامل کر لیا۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے اس عمل کو تسلیم نہیں گیا۔

دلہن کے بھائی فارس رجبی کا کہنا تھا: ’ان کا مقصد فلسطینی شہریوں کو مالی اور اخلاقی طور پر تباہ کرنا ہے۔ یہ بے گھر کرنے کی پالیسی ہے۔‘

دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف ہے کہ بیت القمدس میں مکانات گرانے کے احکامات غیر قانونی تعمیرات کے لیے دیے گئے۔

حالانکہ فلسطینیوں کا اعتراض ہے کہ عمارت تعمیر کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اسرائیل کی اس پالیسی کو انہیں شہر سے زبردستی نکالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بیت المقدس کے نائب میئر اریح کنگ نے اس بات کی تردید کی کہ مکانات کی مسماری کا مقصد فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے۔

کنگ نے روئٹرز کو بتایا: ’جس طرح پورے ملک میں غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا جاتا ہے، مشرقی بیت المقدس میں بھی ایسا ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکام عمارتوں کی تعمیر کے لیے اجازت ناموں کی منظوری دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ اسرائیل منظم انداز میں فلسطینیوں کو بیت القمدس میں قدم جمانے سے روکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے زمین کے بڑے قطعات پر غیر قانونی قبضہ کر کے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں۔ فلسطینیوں کی عمارتوں کو گرا دیا گیا اور تعمیرات کے لیے اجازت نامے کا مہنگا اور پیچیدہ نظام متعارف کروایا گیا۔

دلہن کے بھائی کا مزید کہنا تھا: ’ہم یہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ اگر (اسرائیلی) پوری عمارت کو مسمارنہ کر دے۔‘

جب وہ باتیں کر رہے تھے انہوں نے سوٹ پہن رکھا تھا اور بوٹائی لگائی ہوئی تھی۔ ان کے پیچھے کی تباہ شدہ دیواریں اور تاریں پھیلی ہوئی تھیں۔ تباہ شدہ عمارت پر فلسطینی پرچم لہرا رہا تھا۔

فارس کے بقول: ’ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی بدقسمتی کے  باوجود ہمارے اندر خوشی منانے کا حوصلہ ہے اور ہم اپنی سرزمین سے جڑے رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا