حج کو انسانوں کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع سمجھا جاتا ہے۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا سے پہلے ہر سال 20 سے 25 لاکھ عازمین فریضہ حج ادا کیا کرتے تھے۔ اس سال یہ تعداد کم ہو کر 10 لاکھ ہو گئی ہے مگر پھر بھی یہ ایک کثیر تعداد ہے۔
اتنی بڑی تعداد ہونے کے باعث حجاج کے لیے جہاں عبادت کا اہتمام ضروری ہوتا ہے وہیں یہ فکر بھی لاحق ہوتی ہے کہ کہیں ان کے ساتھی ان سے بچھڑ نہ جائیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو اپنی اہلیہ، والدہ یا بہن کے ساتھ آتے ہیں ان کے لیے معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے کیونکہ نماز کی ادائیگی کے دوران خواتین الگ جگہ نماز پڑھتی ہیں اور مرد حضرات الگ جگہ۔
اور پھر نماز کے بعد شروع ہوتی ہے ایک دوسرے کو ڈھونڈنے کی جستجو۔
جن افراد کے پاس اپنے اپنے فون اور مقامی نمبر موجود ہوں تو انہیں زیادہ دقت نہیں ہوتی، مگر جن کے پاس یہ سہولت نہ ہو، وہ ایک مقام اور وقت طے کر لیتے ہیں جہاں وہ نماز کے بعد ملیں گے۔
تاہم بہت سے حجاج راستہ بھٹک کر اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔
ایسے ہی مناظر مسجد نمرہ میں خطبہ حج کے بعد نظر آئے جہاں حجاج نماز کے فوراً بعد اپنے ساتھیوں کو یا تو فون کرتے رہے، یا پھر طے شدہ مقام پر ان کا انتظار کرتے رہے۔
کانوں سے فون لگائے ان حجاج کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب وہاں 10 لاکھ افراد کی موجودگی کے باعث ٹیلی فون سروسز پر لوڈ کے باعث تعطل آیا اور وقتی طور پر رابطے کی سہولت میسر نہ رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تو وہ افراد تھے جن کے پاس فون موجود تھی۔ جن کے پاس فون نہیں ان کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بھارت سے آئی 50 سالہ فاطمہ زہرہ ایسی ہی خاتون ہیں جن کے شوہر ان سے نماز کے بعد بچھڑ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’(میرے شوہر) نے بتایا تھا کہ ہم 3 نمبر بورڈ کے سامنے ملیں گے۔۔۔میرے پاس ان (شوہر) کا فون نمبر بھی نہیں ہے اور میرا خیمہ بھی چھوٹ گیا ہے۔‘
سعودی انتظامیہ نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ’حاجی سہولت سینٹر‘ قائم کیے ہیں جو گمشدہ حجاج کے ان کے خیمے اور ساتھیوں سے ملانے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح گمشدہ بچوں کے حوالے سے بھی سعودی انتظامیہ نے خصوصی اقدامات کر رکھے ہیں جن میں بچوں کو سمارٹ واچز پہنانا جن سے ان کی لوکیشن معلوم کی جا سکے اور گمشدہ بچوں کے لیے سینٹر بھی قائم کیے ہیں۔