سری لنکا کے صدر اور وزیراعظم نے ہفتے کو شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے سری لنکن رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ طویل مدتی سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے ’تیزی سے کام‘ کریں۔
ملک میں جاری شدید معاشی بحران سے تنگ عوام نے گذشتہ روز صدارتی محل اور ایوان وزیراعظم پر دھاوا بول دیا تھا اور ایک عمارت کو آگ لگا دی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے اتوار کو کہا کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔
وزیراعظم کے اعلان کے چند گھنٹے بعد پارلیمنٹ کے سپیکر نے کہا کہ صدر گوٹابایا راجا پاکسے بدھ (13 جولائی) کو مستعفی ہو جائیں گے۔
معاشی بدحالی کے باعث پیدا ہونے والی ضروری اشیا کی شدید قلت سے لوگوں کو خوراک، ایندھن اور دیگر ضروریات زندگی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جس سے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
ہفتے سے جاری مظارے کو روکنے کے لیے پولیس نے کرفیو نافذ کر کے احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش کی، تاہم انہیں کرفیو اٹھانا پڑا کیونکہ وکلا اور اپوزیشن سیاست دانوں نے اسے غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس سے قبل ہزاروں مظاہرین ہفتے کو دارالحکومت کولمبو میں داخل ہوئے اور صدر راجا پاکسے کی قلعہ بند سرکاری رہائش گاہ میں گھس گئے۔
سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں مظاہرین کو صدارتی محل کے سوئمنگ پول میں نہاتے، محل کے پر تعش کمروں کے بستروں پر لیٹتے اور راہداریوں میں نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کچھ مظاہرین کو چائے بناتے اور کچھ کو کانفرنس روم سے صدر اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات جاری کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
یہ واضح نہیں تھا کہ اس وقت راجا پاکسے وہاں موجود تھے کیونکہ حکومتی ترجمان موہن سمارانائیکے نے کہا کہ انہیں صدر کی نقل و حرکت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ صدر پاکسے کو مظاہرے سے قبل ہی ایوان صدر سے نکال لیا گیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی، جو صدارتی رہائش گاہ کی طرف مارچ کے لیے سڑکوں پر جمع تھے۔ ہفتے کو ہونے والی افراتفری میں مجموعی طور پر 30 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
وزیراعظم وکرما سنگھے کے دفتر نے بتایا کہ بعد میں مظاہرین نے وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ میں گھس کر اسے آگ لگا دی۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ جب حملہ ہوا تو وزیراعظم وہاں موجود تھے یا نہیں۔
سپیکر مہندا یاپا ابی وردھنا نے ٹی وی پر نشر کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے صدر راجا پاکسے کو مطلع کیا کہ پارلیمانی رہنماؤں نے ہنگامی ملاقات میں ان سے عہدہ چھوڑنے کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صدر نے اس فیصلے سے اتفاق کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم سپیکر کہا کہ ’راجا پاکسے اقتدار کی ہموار منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے مزید کچھ عرصہ صدارت کے منصب پر فائز رہیں گے۔‘
سپیکر نے کہا: ’صدر پاکسے نے مجھ سے عوام کو مطلع کرنے کو کہا کہ وہ بدھ یعنی 13 جولائی کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گے کیونکہ اس وقت ملک کو پرامن اقتدار منتقلی کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس لیے ملک میں مزید انتشار کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ملک کی خاطر ہر ایک پر زور دیتا ہوں کہ وہ امن و امان برقرار رکھیں تاکہ اقتدار کی ہموار منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے۔‘
اپوزیشن کے رکن پارلیمان رؤف حکیم نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سپیکر کو بطور قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنے اور عبوری حکومت پر کام کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
ادھر وزیراعظم وکرما سنگھے نے خود ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ جب تک نئی حکومت نہیں بن جاتی، وہ استعفیٰ نہیں دیں گے تاہم ناراض مظاہرین ان کی فوری رخصتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وکرماسنگھے نے ایک بیان میں کہا: ’آج اس ملک کو ایندھن کے بحران کا سامنا ہے، ملک میں خوراک کی کمی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ یہاں آرہے ہیں اور ہمارے پاس آئی ایم ایف سے بات کرنے کے لیے کئی معاملات ہیں۔ اس لیے نئی حکومت کے قیام سے پہلے ملک میں ایک حکومت کا ہونا ضروری ہے جو ان سے بات چیت کر سکے۔‘
وکرما سنگھے نے کہا کہ انہوں نے صدر کو ایک آل پارٹی حکومت بنانے کا مشورہ دیا ہے لیکن انہوں نے صدارتی محل سے فرار راجا پاکسے کے نئے ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اس دوران اپوزیشن جماعتیں نئی حکومت کی تشکیل پر بحث کر رہی ہیں۔
امریکہ کا سری لنکن پارلیمنٹ سے مطالبہ
دوسری جانب امریکہ نے اتوار کو سری لنکا کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ طویل مدتی سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ سری لنکا کی پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملک کی بہتری کے عزم کے ساتھ آگے بڑھے۔
ترجمان نے مزید کہا: ’ہم اس حکومت یا کسی بھی نئی یا آئینی طور پر منتخب حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے حل کی نشاندہی اور ان پر عمل درآمد کے لیے تیزی سے کام کرے، جس سے طویل مدتی اقتصادی استحکام حاصل ہو اور سری لنکا کے عوام کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت بشمول بجلی، خوراک اور ایندھن کی قلت پر عدم اطمینان کو دور کریں۔‘
امریکہ نے مظاہرین یا صحافیوں پر حملوں کے خلاف بھی خبردار کیا۔
ترجمان نے کہا: ’سری لنکا کے لوگوں کو پرامن طریقے سے اپنی آواز بلند کرنے کا حق ہے۔ ہم احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات میں ملوث کسی بھی شخص کی مکمل تحقیقات، گرفتاری اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘