پنجاب میں عیدالاضحیٰ کے پہلے دن فیصل آباد میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے تین اور شیخوپورہ میں دو افراد کو گھر میں قربانی کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا۔
اتوار کو فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں چک 89 ج ب کے دو گھروں میں قربانی کی جارہی تھی، جس کے بعد یہ مسئلہ اٹھا۔
فیصل آباد پولیس کے ترجمان منیب گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ آئین پاکستان 1973 کے مطابق احمدیوں کو ’غیر مسلم‘ قرار دیا جا چکا ہے اس لیے وہ قربانی نہیں کر سکتے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان و دیگر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنے خلاف ہونے والے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پولیس کے ترجمان کے مطابق چند روز قبل ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی احمدیوں کو یہ نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ قربانی نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ پولیس نے خود انہیں ایک دو روز قبل تنبیہ کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’صبح جب یہ معاملہ سامنے آیا پولیس موقعے پر پہنچی اور انہیں منع کیا مگر کچھ دیر بعد ان دونوں گھروں میں پھر وہی عمل شروع کردیا جس کے بعد علاقے کے لوگ مشتعل ہو کر ان گھروں کے باہر اکٹھے ہو گئے۔‘
ترجمان کے مطابق پولیس موقعے پر پہنچی اور اس عمل کو رکوایا اور تین افراد کو گرفتار کیا۔
منیب کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس وقت ایسا نہ کرتے تو وہاں مشتعل افراد کے ہجوم کو روکنا مشکل ہوجاتا اور بات کافی آگے تک چلی جاتی اور کوئی بڑا ہنگامہ ہو سکتا تھا۔
’اس لیے پولیس نے فوری قربانی کو رکوا کر تین ملزمان کو گرفتار کیا اور ایک مقامی شخص کی مدعیت میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ‘
تھانہ ٹھیکری میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 298 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمے کے مدعی ماجد جاوید نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ ان کے علاقے میں بسنے والے احمدی افراد عید کی صبح اپنے اپنے گھروں میں قربانی کر رہے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق مدعی نے گواہان کے ہمراہ مختلف لوگوں کی معاونت سے چھت سے دیکھا تو ان کے احمدی پڑوسی سیڑھی کے ساتھ بکرا لٹکا کر ذبح کر رہے تھے جبکہ ایک دوسرے احاطے میں وہ بڑے جانور کا گوشت بنا رہے تھے۔
مدعی نے ایف آئی آر میں لکھا کہ احمدیوں کے اس عمل سے علاقے کے مسلمانوں کے ’مذہبی جذبات مجروح‘ ہوئے جبکہ انہوں نے اس سارے عمل کی ویڈیو بھی بنائی جو کہ وہ پولیس کو ثبوت کے طور پر مہیا بھی کر سکتے ہیں۔
جماعتِ احمدیہ کے ترجمان نے ردعمل میں اپنی ٹویٹ میں کہا: ’ٹھیکری والا میں تین احمدیوں کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ گھر کی چار دیواری میں قربانی کا فرض ادا کر رہے تھے۔ پولیس پنجاب بھر میں احمدیوں کو دھمکا رہی ہے۔ احمدی عید کے روز بھی امن میں نہیں رہ سکتے۔‘
انچارج پریس سیکشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان عامر محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا تھا کہ احمدی اپنی مذہبی رسومات اپنی چار دیواری میں کر سکتے ہیں۔ آج جو ہوا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
’یہ مقدمہ بنیادی طور پر ہوا ہے اس کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ کافی عرصے سے مہم چل رہی ہے کہ احمدیوں کو قربانی سے روکا جائے اس ضمن میں جماعت احمدیہ کے مخالفین سرکاری انتظامیہ کو درخواستیں دیتے ہیں کہ احمدیوں کو قربانی سے روکا جائے تو اس سال بھی یہی ہوا ہے۔ اور پھر پاکستان خاص طور پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں پولیس نے احمدیوں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ قربانی نہیں کریں گے۔ ہم اپنی کمیونٹی کو پہلے ہی یہ ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں کہ وہ مذہبی رسومات چار دیواری کے اندر کریں۔‘
عامر محمود نے کہا کہ اس مقدمے میں مدعی کے مطابق اس نے چھت پر چڑھ کر دیکھا کہ احمدی اپنے گھر کے اندر قربانی کر رہے ہیں۔ جو بالکل ہی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور احمدیوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔
2 Ahmadies were arrested in Safdarabad, Sheikhupura because the complainant heard sound of Islamic words & later saw blood coming from an Ahmadi house.
— Saleem ud Din (@SaleemudDinAA) July 10, 2022
Ever compliant @OfficialDPRPP were ready to register an FIR.
This 2nd among many such incidents of police harassment today. pic.twitter.com/bRFTwuYoJ2
جماعتِ احمدیہ کے ترجمان نے شیخوپورہ میں بھی گرفتاریوں کے بارے میں ٹویٹ کیا۔
شیخوپورہ پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عید کے روز شیخوپورہ سے بھی دو احمدیوں کو اپنے گھر پر قربانی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس کا مقدمہ تھانہ صفدرآباد میں مقامی رہائشی کی مدعیت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 298 سی کے تحت درج کیا گیا ہے۔