حضرت عثمان بن عفان کا ایک یہودی سے کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دینے کا واقعہ اسلام کی تاریخ میں ایثار کے متعدد واقعات میں سے ایک ہے۔
یہ کنواں (رومہ کنواں) آج 14 سو سے زائد سال گزرنے کے بعد بھی پانی دے رہا ہے اور اس کے اردگرد کھجوروں کا باغ ہے جس کی کھجوریں آپ خرید سکتے ہیں۔
اس باغ کو سیراب کرنے کے لیے پانی بھی اسی کنویں سے لیا جاتا ہے۔ مدینہ کے مقامی ریکارڈ کے مطابق یہ کنواں اور اس کے گرد باغ اب بھی حضرت عثمان بن عفان کی ملکیت ہے۔
مدینہ میں مسجدِ نبوی سے 11 کلومیٹر کی مسافت پر قائم ایک دکان ہے جو رومہ کنویں کے قریب ہے، جہاں سے آپ نہ صرف یہ پانی پی سکتے ہیں بلکہ اس باغ کی کھجوریں خرید بھی سکتے ہیں۔
’ارویٰ المدینہ للتمور‘ نامی دکان کے مالک نثار احمد ہیں جن کے مطابق یہاں ایک کولر موجود ہے جس میں اس کنویں کے پانی کو ملایا جاتا ہے اور گاہکوں کو بغیر کسی معاوضے کے پیش کیا جاتا ہے۔
نثار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس پانی میں بئر عثمان کا پانی شامل ہے۔ یہ وہ کنواں ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ جو شخص یہ کنواں لے کر وقف کرے گا اس کے لیے جنت میں کنویں کا وعدہ ہے۔ یہ نیکی حضرت عثمان غنی کے حصے میں آئی۔‘
نثار احمد کے مطابق کنویں سے اب بھی پانی آتا ہے۔ اس بات کی تصدیق خود مدینہ کے محقق بھی کر چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مدینہ کی ترقیاتی اتھارٹی کے ایک سائنسی محقق عبداللہ کبیر نے سعودی پریس ایجنسی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کے زمانے کا یہ واحد کنواں ہے جس سے اب بھی پانی آتا ہے۔
نثار احمد نے بتایا: ’اس کنویں میں ایک مشین لگا دی گئی ہے جس سے ٹینک کو بھرتے ہیں اور پھر پائپ کے ذریعے درختوں کو پانی دیا جاتا ہے۔
’اس پانی کو بیچنا جرم ہے۔ یہ پانی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے، لوگ آتے ہیں، پیتے ہیں۔ یہ سبیل ہے اور اس کے لیے کوئی پیسے وغیرہ نہیں لیتے۔‘
کنویں سے متصل باغ کے حوالے سے نثار احمد نے بتایا: ’اس باغ میں اس پانی سے تیار ہونے والی کھجوریں ہمارے پاس آتی ہیں۔ ہم نیلامی میں تمام فصل خرید لیتے ہیں اور یہ کھجوریں سارا سال دستیاب ہوتی ہیں۔‘
حضرت عثمان بن عفان کے نام پر اکاؤنٹ آج بھی سعودی عرب میں موجود
سعودی حکومت نے حضرت عثمان بن عفان کے نام سے ایک وقف اکاؤنٹ بھی کھول رکھا ہے جس میں اس باغ سے حاصل ہونے والی آمدنی جمع ہوتی ہے جس سے غریب افراد کی مدد کی جاتی ہے۔
سعودی محکمہ اوقاف کے مطابق جب سعودی ریاست قیام عمل میں آئی تو ریاست نے اس کنویں کی دیکھ بھال شروع کی اور اردگرد کی زمین کو دوبارہ واپس کیا اور اس پر کھجور کے درخت لگانا شروع کیے۔
’1953 میں وزارت ماحولیات و زراعت نے وزارت اسلامی امور سے اس کنویں کو لیز پر حاصل کیا اور کھجور کے باغات یہاں لگائے۔ اس باغ میں اب 15 ہزار سے زائد درخت ہیں جبکہ اس کنویں کی گہرائی تقریباً 37 میٹر ہے اور پانی 29 میٹر پر موجود ہے۔‘