میری چین سے واپسی کے بعد میرے ایک دوست نے مجھے ایک پیغام بھیجا جس میں وہ بہت طریقے سے مجھ سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت مانگ رہے تھے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں لمبی چوڑی تمہید باندھی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق وہ یہ سوال کافی عرصے سے پوچھنا چاہ رہے تھے لیکن میرے چین میں ہونے کی وجہ سے نہیں پوچھ رہے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ان کے سوال کی وجہ سے چین میں کسی مسئلے کا شکار ہو جاؤں۔
میں اس لمبی چوڑی تمہید کے بعد ان کا سوال سمجھ چکی تھی۔ میں نے پھر بھی ان سے سوال پوچھنے کا کہا۔
سوال وہی تھا جو ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ پوچھ چکے ہیں: کیا چین میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟ کیا ان پر واقعی ظلم ہو رہا ہے؟ کیا وہ اپنی مذہبی رسومات بغیر کسی خوف اور دباؤ کے ادا کر سکتے ہیں؟
تازہ تازہ عیدِ قرباں گزری ہے۔ اس بارے بھی ایک سوال لے لیں۔ کیا مسلمان وہاں عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کر سکتے ہیں؟
میں نے انہیں اول تو اپنے محدود تجربے کا بتایا۔
میں نے پانچ سال بیجنگ میں گزارے ہیں۔ ماسٹرز کی ڈگری کے دو سالوں میں چین کے کئی شہروں میں جانے کا موقع ملا۔
پی ایچ ڈی کے تین سال کرونا کی عالمی وبا کے باعث بیجنگ میں ہی گزر گئے۔
اس دوران ان گنت چینی مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔
بیجنگ اور چین کے دیگر شہروں میں حلال ریستوران عموماً مسلمان ہی چلا رہے ہوتے ہیں۔ وہاں جانا ہوتا تھا تو ان سے ہلکی پھلکی بات چیت بھی ہو جاتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجنگ کی کچھ مساجد میں بھی جانا ہوا۔ وہاں بھی بہت سے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔
یونیورسٹی تو تھی ہی۔ وہاں بھی بہت سے مسلمان دوست بنے۔
ایک دفعہ ایک ڈیٹنگ ایپ پر بھی سنکیانگ کے ایک نوجوان کے ساتھ میچ ہوا تھا۔
میرے اس محدود تجربے کی روشنی میں چین میں مسلمانوں سمیت ہر اقلیت چین کے ہر باشندے پر عائد پابندیوں سمیت اپنی زندگی خوشی خوشی گزار رہے ہیں۔
کم از کم ہم سے تو اچھے حالات میں ہی رہ رہے ہیں۔
مجھے بھی دوبارہ موقع ملے تو میں اپنی زندگی چین میں ہی بنانے کی کوشش کروں گی۔ اس کی بنیادی وجہ بس یہ جان لیں کہ جو چین میں نے وہاں رہ کر دیکھا ہے وہ آپ نے یہاں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔
کرونا کی عالمی وبا کے آنے کے بعد دہائیوں سے چین میں بیٹھے غیر ملکی وہاں سے باہر نکلے تھے ورنہ ان کا بھی وہاں سے جانے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔
اگر حالات نارمل ہوتے تو میں سنکیانگ ضرور جاتی۔ وہاں کے مقامی لوگوں سے ملتی۔ ان کا رہن سہن دیکھتی۔ ان سے باتیں کرتیں اور ان کے ’اصل حالات‘ جاننے کی کوشش کرتی۔
میرے جو دوست وہاں جا چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہاں جانا چین کے باقی شہروں میں جانے جیسا نہیں ہے۔ سنکیانگ جانے کے لیے آپ کو کسی ٹور گروپ میں شمولیت اختیار کرنی پڑتی ہے ورنہ ہوٹل کی بکنگ میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔
بیجنگ میں سنکیانگ سے آئے ہوئے لوگ اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی سنکیانگ میں آزادانہ گھوم سکتا ہے۔
لیکن وہ خود کتنی آزادی کے ساتھ گھوم سکتے ہیں، اس سوال کا جواب جاننا باقی ہے۔
عید الاضحیٰ کا ذکر کریں تو کم از کم بیجنگ کی حد تک چینی مسلمانوں میں مذہبی جوش و خروش کافی کم ہو چکا ہے۔
عید کے دن مساجد میں بزرگ چینی ہی نظر آتے ہیں۔ نوجوان نسل عید پر اپنے کام کو فوقیت دیتے ہیں۔
چین میں قیام پذیر غیر ملکی مسلمان عید منانا چاہیں تو منا سکتے ہیں۔ ان کے سفارت خانے اور کمیونٹی گروہ ان کے لیے ہر طرح کا انتظام کر کے رکھتی ہیں۔
بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارت خانہ بھی ہر سال اپنے عملے اور جان پہچان کے لوگوں کے لیے اجتماعی قربانی کا انتظام کرتا ہے۔
بظاہر یہ انتظام چین میں مقیم ساری پاکستانی کمیونٹی کے لیے کیا جاتا ہے لیکن اس کی خبر ایک مخصوص حلقے کو ہی کی جاتی ہے۔
جو پاکستانی اس انتظام کے بارے میں جانتے ہوں اور قربانی بھی کرنا چاہتے ہوں وہ عید سے پہلے منتظمین کے ساتھ رابطہ کر کے اپنی قربانی کے لیے جانور پسند کر لیتے ہیں۔
چینی قصاب زندہ جانور کا وزن کرتے ہیں۔ چین میں وزن کی اکائی آدھ کلو ہے۔ اسے چینی زبان میں جِن کہا جاتا ہے۔ فی جِن 18 سے 20 یوآن کے حساب سے جانور کی فروخت ہوتی ہے۔
جو پاکستانی اس انتظام سے ناواقف ہوں اور قربانی کرنا چاہتے ہوں وہ قربانی کے لیے اپنی قریبی چینی مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ وہاں موجود چینی انتظامیہ یا وہاں آنے والے چینی مسلمان انہیں جانور خریدنے اور اس کی قربانی کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
اتنا بھی نہ ہو سکے تو بس عید والے دن مسجد چلے جائیں۔ مسجد کے باہر آپ کو بہت سے قصائی مویشی سمیت مل جائیں گے۔ ان سے حساب کریں۔ قربانی کروائیں اور گوشت لے کر گھر آ جائیں۔
ہاں، اگر آزادی سے آپ کی مراد ہر گلی میں قربانی کر کے خون بہانا اور آلائشیں بکھیرنا ہے تو معاف کیجیے گا، چین میں مسلمانوں کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے۔