اس سال کا حج خواتین کے اعتبار سے قدرے منفرد تھا۔ سعودی حکومت نے ان کے لیے برسوں سے چلی آ رہی محرم کی شرط ختم کر دی۔ نتیجتاً پاکستان سے معروف صحافی اور اینکر ثنا بُچہ اکیلے حج کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
یہ ان کا دوسرا حج تھا۔ اس سے قبل وہ اپنے بھائی کے ساتھ حج کرچکی تھیں، لہٰذا محرم کے ساتھ اور بغیر وہ حج کرنے کے دونوں تجربات سے گزر چکی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے حج کے بعد واپسی پر ثنا بُچہ سے بات کی اور فرق جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا: ’بالکل ویسا ہی لگا جیسا محرم کے ساتھ کیا تھا۔‘
سعودی وزارت حج نے اس مرتبہ سرکاری طور پر خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے بغیر زیارت کرنے کی اجازت دے دی بشرط یہ کہ وہ کسی گروپ میں جائیں۔ یہ فیصلہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے جاری سماجی اصلاحات کا حصہ ہے۔
ثنا بُچہ کہتی ہیں کہ خواتین کے پاس اکیلے حج کا آپشن ہونا چاہیے تاہم اگر مرد ساتھ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ’حج جسمانی طور پر بڑا مشکل ہوتا ہے۔ شدید گرمی سے ہیٹ سٹروک کا خدشہ، مناسب کھانا ملنا، سایہ دار جگہ ملنا، پانی ٹھیک مقدار میں پی رہے ہیں یا نہیں اور کووڈ 19 کے بعد ماسک پہننا تو ایسی صورت حال میں آپ کو ایسا شخص چاہیے جو آپ کی مدد اور رہنمائی کرسکے۔‘
لیکن وہ کہتی ہیں کہ محرم کا صرف والد، بھائی یا شوہر تک محدود ہونا خواتین کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ ’میرے والد تین حج کرچکے ہیں۔ اب وہ میرے لیے چوتھا حج کیوں کریں، جو ان کا سوال ہوسکتا ہے۔‘
خواتین کو ہمارے معاشرے میں محرم کی شرط کی وجہ سے مردوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ثنا کہتی ہیں کہ اکثر مرد اور عورت کے وقت میچ نہیں کرتے۔ ’میں اپنے شوہر کا انتظار کروں کہ وہ فارغ ہو جائیں تو ایسے میں اس شرط کا ختم ہونا اچھا ہے۔‘
ثنا نے بتایا کہ وہ ایک ایسی خاتون کو جانتی ہیں، جنہیں مردوں کے ساتھ جانے کا سات سال (جس میں کرونا وبا کے دو سال بھی شامل ہوئے) انتظار کرنا پڑا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سعودی عرب میں خواتین کو کئی سہولیات مہیا کی گئی ہیں، جن میں ڈرائیونگ اور مرد سرپرست کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت شامل ہے۔
پاکستان میں بھی محرم کے معاملے پر کافی بحث ہوتی رہی ہے اور اسے ختم کرنے کے حق میں کئی فتوے بھی ماضی میں جاری کیے گئے ہیں۔
لاہور میں قائم تحریک منہاج القرآن کی فتویٰ آن لائن ویب سائٹ دارالافتاء پر عورتوں کے بغیر محرم حج کے بارے میں تفصیلی وضاحت 2017 میں دی گئی ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے کہ ’قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پرخطر ہوتے تھے۔ جنگلوں، بیابانوں اور دشوار راستوں سے گزر ہوتا تھا۔ زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے اور مہینے صرف ہوتے تھے۔ دورانِ سفر چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفری تکالیف اور خطرات کے باعث عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع فرمایا تاکہ ان کی عفت وعصمت کی حفاظت ہو۔
’دوسری طرف ایک حدیث مبارکہ میں یہ بھی ذکر ہے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا: ’اگر تمہاری عمر نے وفا کی تو تم ضرور دیکھ لو گے کہ ایک بڑھیا الحیرہ ( قدیم عراق میں الحیرہ کا ذکر قبل از اسلام کے عرب میں بہت ملتا ہے، جو لخمیوں کا پایہ تخت تھا) سے چلے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی لیکن اسے خدا کے سوا کسی دوسرے کا خوف نہیں ہوگا۔
’پھر حضرت عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھ لیا کہ ایک بڑھیا نے حیرہ سے چل کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فتوے کے مطابق اس حدیث مبارکہ میں امن وامان قائم ہونے پر بڑھیا کا اکیلے سفر کرنا ثابت ہے۔ لہٰذا ہمیں اس عِلّت اور پس منظر کو مدِنظر رکھنا چاہیے جس کی بنا عورت کو محرم کے بغیر مطلقاً سفر یا سفر حج پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔ فتوے کے مطابق آج ذرائع مواصلات بہت ترقی کر گئے ہیں۔
’بے شمار سفری سہولیات وآسانیاں میسر آچکی ہیں۔ دوران سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے ۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیے جاتے ہیں جو محرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی محرم بن گئے ہیں۔ جب عورت عورتوں کے بااعتماد گروپ میں ہو تو یہ اجتماعیت محرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ ان حالات میں عورت محرم کے بغیر عام سفر بھی کر سکتی ہے اور حج وعمرہ پر بھی جا سکتی ہے۔‘
عورتوں کے محرم کے بغیر جانے کی ممانعت پر ایک فتوہ کراچی کی جامعہ بنوریہ کا بھی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عورت مرتی مر جائے لیکن بغیر محرم حج نہیں کرسکتی۔ ہاں مرتے وقت حج بدل کی وصیت کرسکتی ہے۔
اس سال دنیا بھر سے آئے ہوئے تقریباً 10 لاکھ حجاج میں سے چار لاکھ سے زیادہ خواتین تھیں، جو اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ تھیں۔ خواتین کی مجموعی شرح تقریباً 40 فیصد رہی۔ نئے فیصلے سے خیال ہے کہ اس تعداد میں آنے والے برسوں میں اضافہ ہوگا۔
شوہر اور بچوں کے ساتھ حج کا اپنا فائدہ اور لطف ہے لیکن اکیلے حج میں بعض لوگوں کے خیال میں آپ اپنے خالق سے زیادہ یکسوئی کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتے ہیں۔ ثنا کہتی ہیں کہ اکیلے حج میں آپ کسی کی ذمہ دار نہیں ہیں۔ ’یہ میرا اور میرے اللہ کا وقت ہوتا ہے۔ تم کہاں چلے گئے، تمھارا ہاتھ تو نہیں چھوٹ گیا، تم میرے قریب ہو یا نہیں ہو۔ اس وقت ایک الگ کیفیت ہوتی ہے۔ مجھے تو یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ میرے ساتھ کوئی اور ہے۔ آپ کی اللہ تعالی کے ساتھ زیادہ گہری بات ہوسکتی ہے۔
’اس مرتبہ میں نے اتنی خواتین کو دیکھا جو اپنی والدہ کو لے کر آئی تھیں۔ ان کے مردوں کے پاس وقت نہیں تھا۔ ایک ماں کو اس کا بیٹا سات سال سے اگلے سال کا کہہ کر ٹالتا رہا تو اب ان کی بیٹی انہیں لے آئیں۔‘