بلوچستان کے ضلع ژوب اور دکی میں بارشوں کے بعد ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی ہے، جس کے باعث ایک ہفتے کے دوران وبا سے نو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر مظفر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’مریضوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حالیہ بارشوں کے بعد ضلع میں ہیضے کی وبا سے ایک ہفتے کے دوران اب تک دو سے ڈھائی ہزار کے قریب لوگوں نے ہسپتال سے رجوع کیا ہے اور 100 سے زائد لوگ اب بھی ڈسٹرکٹ ہیلتھ ہسپتال ژوب میں زیر علاج ہیں۔
ڈاکٹر مظفر شاہ نے بتایا کہ مریضوں میں سے اکثر ڈائریا اور الٹیوں کی شکایت کے ساتھ ہسپتال آئے، جن کا دستیاب وسائل میں علاج معالجہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے وائرس کے نمونے لے کر اسلام آباد بجھوا دیے ہیں، جس کے بعد معلوم ہوگا کہ وائرس کون سا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بارشوں اور پانی کی خرابی کے باعث یہ وبا پھیلی ہے۔ ’ہم نے عالمی ادارہ صحت سے بھی مدد طلب کی ہے۔ جہاں پر ضرورت پڑتی ہے۔ مریضوں کے لیے گاڑی بجھوا دیتے ہیں۔‘
دوسری جانب بلوچستان کے ضلع دکی میں سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جوہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وبا پر کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ضلع میں وبا پھیلنے کے بعد اب تک ایک ہزار سے زائد مریض سامنے آئے ہیں، جن میں بہت سے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ مریضوں میں بچے، بوڑھے اور دیگر مریض شامل تھے اور انہیں ڈائریا، الٹی اور سردرد کی شکایت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ وہ ضلع بھر میں واحد ڈاکٹر ہیں، اس لیے وہ وبا کے دوران مسلسل 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں اور چونکہ ہسپتال میں وائرس کی تشخیص کا نظام نہیں ہے، اسس لیے ابھی تک واضح نہیں کہ یہ کون سا وائرس ہے۔
ڈاکٹر جوہر نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 مریض ہسپتال لائے جاتے ہیں، جن میں سے بعض کو ادویات دے کر فارغ کردیا جاتا ہے جبکہ جن مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے، انہیں داخل کردیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت انہیں وبا کے حوالے سے اینٹی بائیوٹک اور دیگر ادویات کی قلت کا سامنا ہے اور سول ہسپتال کو کافی عرصے سے ادویات کا کوٹہ نہیں دیا گیا ہے۔
ہیضے کی وبا پھیلنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’بارش اور کوئلے کی کانوں کے باعث یہاں کا پانی آلودہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے یہ وبا پھیلی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ڈاکٹر جوہر نے بتایا کہ دکی میں ہیضےکی وبا سے اب تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور تمام مریضوں کو علاج کے بعد گھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں میڈیکل آفیسرز کی کمی کا سامنا ہے، جو اس طرح کی صورت حال کو کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کرسکیں۔
بلوچستان میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے نمائندے ڈاکٹر داؤد ریاض کی طرف سے فراہم کردہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں تین ماہ کے دوران اکیوٹ واٹری ڈائریا ( اے ڈبلیو ڈی) کے 13975 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نےبتایا کہ صوبے کے 16 اضلاع ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، کوئٹہ، کوہلو، لسبیلہ، کیچ، گوادر، قلعہ عبداللہ، چمن، لورالائی، جعفرآباد،ژوب، قلعہ سیف اللہ، بارکھان اور خضدار میں مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وبا سے 21 ہلاکتیں ہوچکی ہیں، جن میں سے 13 تصدیق شدہ اور 10 مشتبہ کیسز شامل ہیں۔
ڈاکٹر داؤد ریاض نے بتایا کہ اب تک نو اضلاع میں ہیضے کی وبا کےکیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
بقول ڈاکٹر داؤد ریاض: ’جن اضلاع میں ٹیسٹ نہیں ہوئے یا وہاں سے کوئی کیس سامنے نہیں آیا تو ہم انہیں مشتبہ سمجھتے ہیں۔‘
اس سے قبل بلوچستان کےضلع ڈیرہ بگٹی میں پیرکوہ کے علاقے میں ہیضےکی وبا سے کئی لوگ متاثر ہوئے تھے۔
پیرکوہ میں پہلے کیس کی نشاندہی 17 اپریل کو ہوئی تھی۔ جس کی تصدیق 30 اپریل کو کی گئی۔
دوسری جانب ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی خصوصی ہدایت پر صوبے کے بارش سے متاثرہ اضلاع میں محکمہ صحت کی جانب سے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاکہ متاثرین کو ہیضہ اور دیگر متعدی بیماریوں سے بچایا جاسکے۔
فرح عظیم کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں صوبائی سیکرٹری صحت صالح محمد ناصر کی نگرانی میں صوبے کے دور دراز اور بارش کے متاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیمیں فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کر رہی ہیں، جہاں بیمار افراد کا چیک اپ، علاج معالجہ اور مفت ادویات کی فراہمی جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت عوام کو صحت سے متعلق سہولیات کی فراہمی کے لیے جامع حکمت عملی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور موجودہ ہنگامی صورت حال میں عوام کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔