’ن لیگ کے پاس اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز ختم‘

سیاسی مبصرین کے خیال میں عمران خان کی حکومت کے قبل از وقت خاتمے نے جو ’وکٹم کارڈ‘ انہیں دیا وہ ان کے ’کرپشن اور بیرونی سازش کے بیانیوں‘ سے کہیں زیادہ کامیاب رہا، جبکہ مسلم لیگ ن کی اپنی غلطیوں نے بھی تحریک انصاف کو فائدہ پہنچایا۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں 15 نشستوں پر کامیاب ٹھہری جبکہ مسلم لیگ ن کو بعض تجزیہ کاورں کے خیال میں ’غیرمتوقع‘ شکست نصیب ہوئی (تصاویر: عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی شکست کی وجوہات میں بعض غلط فیصلے اور عمران خان کے بیرونی سازش اور کرپشن سے متعلق بیانیوں کی کامیابی شامل ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں شعبہ ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے خیال میں پنجاب کے عوام نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کو قبول کیا اور اس کے حق میں ووٹ دیا۔

 انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے كہا كہ ’عمران خان اپنے بیانیے پر ڈٹے رہے، جبکہ ان کے مخالفین سے دوسری بھی کئی غلطیاں ہوئیں اور ان ہی عوامل نے ضمنی انتخابات کے نتائج کا تعین کیا۔‘

اس سال مارچ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا خاتمہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی اقتدار کی تبدیلی کا محرک بنا۔ اس تبدیلی سے ان کے حامی سخت غصے میں آئے اور سوشل میڈیا پر ہر کسی پر تنقید کا ایک بظاہر نہ تھمنے والے سلسلے کا آغاز ہوا۔

اس شدید تنقید کی زد میں بااثر اسٹیبلشمنٹ بھی آئی اور تجزیہ کاروں کے مطابق شاید مزید تنقید سے بچنے کی خاطر بظاہر غیرجانبدار رہی۔

بعد میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز شریف کا بحیثیت وزیراعلیٰ انتخاب ممکن ہوا۔

حمزہ شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے میں پاکستان تحریک انصاف کے 20 اراکین صوبائی اسمبلی نے کلیدی کردار ادا کیا، جن کی وفاداریوں کی تبدیلی نے صوبے کے نئے چیف ایگزیکٹیو کے انتخاب کو ممکن بنایا۔

تحریک انصاف نے اپنے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، جہاں 20 اراکین اسمبلی کی رکنیت فلور کراسنگ کے الزام میں ختم کر دی گئی۔

منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی میں خالی ہونے والی 20 نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات اتوار (17 جولائی) کو منعقد ہوئے۔

آخری اطلاعات تک گذشتہ رات غیرحتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں 15 نشستوں پر کامیاب ٹھہری، جبکہ مسلم لیگ ن کو بعض تجزیہ کاورں کے خیال میں ’غیرمتوقع‘ شکست نصیب ہوئی۔

بیانیوں کی جنگ

سابق وزیراعظم عمران خان ہمیشہ سے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

چند مہینے قبل انہوں نے غیرملکی سازش کے ذریعے اپنی وفاقی حکومت کے خاتمے کا بیانیہ بھی ترتیب دیا اور حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش میں پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی مخالفین کے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور دوسری پی ٹی آئی مخالف جماعتیں عمران خان پر 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے کامیابی حاصل کرنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’عمران مخالف جماعتوں نے جن قوتوں کے خلاف بیانیہ بنایا، انہی کی مدد سے عمران خان کو ہٹا کر خود اقتدار میں آئیں۔‘

ان کے خیال میں پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل سے عمران خان کے کرپشن اور حکومت کی تبدیلی کے بیانیوں کو عوامی حلقوں میں تقویت اور پذیرائی ملی، جس کا انہیں ضمنی انتخابات میں فائدہ ہوا۔

بقول رسول بخش رئیس: ’عمران خان نے جو بیانیے بنائے ان پر ڈٹے رہے، اور اپنے مخالفین کے بیانیوں کو غلط ثابت کیا، جس کے نتیجے میں انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔‘

ویب سائٹ ’ہم سب‘ كے ڈائریكٹر نیوز آصف میاں المعروف وصی بابا كا کہنا تھا کہ عمران خان شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کرپٹ کہتے آئے ہیں اور لوگوں کو شاید اس بات کی سمجھ آ گئی۔

’کپتان کا بیانیہ چل گیا اور عوام نے یقین کر لیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں سچ ہے۔‘

تجزیہ كاروں اور ماہرین كے علاوہ پاكستان تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین بھی عمران خان کے بیانیے کی کامیابی سے متفق نظر آئے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے غیرملکی سازش اور بعد ازاں اپنی جان کو خطرے لاحق ہونے سے متعلق بیانیے اپنائے۔

’ان کا بیرونی سازش والا بیانیہ عوام میں بک گیا اور اس كا انہیں ضمنی انتخابات میں فائدہ ہوا۔‘

صحافی سلیم صافی كے خیال میں عمران خان اپنے بیانیے كو لوگوں تک پہنچانے میں كامیاب ہو گئے جبكہ مسلم لیگ ن اپنی کوئی میڈیا سٹریٹیجی بھی نہ بنا سکی۔ بعض لوگوں کے خیال میں یہ سیاسی جنگ دراصل سوشل میڈیا پر لڑی گئی جس میں تحریک انصاف کو برتری حاصل تھی۔

مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کی غلط تقسیم

مسلم لیگ ن نے مبینہ طور پر تحریک انصاف کے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی سے آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کا وعدہ کیا تھا، جسے اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشنز میں پورا کیا گیا۔

وصی بابا کے خیال میں مسلم لیگ ن کا پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ الاٹ کرنا ایک غلط فیصلہ تھا، جس نے لیگی امیدواروں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ان تمام حلقوں میں اپنے امیدوار موجود تھے، جو جیت بھی سکتے تھے، لیکن انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دیے گئے۔

’ان حلقوں کے عوام اور خصوصاً مسلم لیگ ن کے ورکرز ان فیصلوں کو ہضم نہیں کر پائے اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ ن ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار میدان میں اتارتی تو ان کے جیتنے کے امکانات روشن تھے اور اس طرح یہ نشستیں لمبے عرصے کے لیے اس جماعت کی رہ جاتیں۔

قمر زمان کائرہ نے بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں کے انتخاب کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی جو نشستیں جیتیں ہیں ان پر اسی جماعت کے امیدوار 2018 میں کامیاب ہوئے تھے۔

’یہ تحریک انصاف ہی کی خالی کی ہوئی نشستیں تھیں اور انہوں نے ہی واپس جیت لیں لیكن مسلم لیگ ن كے وركرز كے ردعمل كو نظر انداز نہیں كیا جا سكتا۔‘

شہباز حکومت کی ’بری کارکردگی‘

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو اقتدار میں آنے کے فورا بعد چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے۔ عمران حکومت گرانا ان کا بظاہر ہدف نمبر ایک تھا لیکن اس کے بعد حکومت کیسے چلانی ہے اس کی تیاری نہیں تھی۔ اسی لیے اہم اقتصادی اور دیگر فیصلوں میں تاخیر ہوئی۔

وزیر اعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے قبول کیا کہ ان کی وفاقی حکومت مہنگائی کے طوفان کو کنٹرول کرنے میں فی الحال ناکام رہی ہے اور ضمنی انتخابات میں اس فیکٹر نے بھی ایک کردار ادا کیا۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خرم دستگیر اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ٹویٹ کیا کہ ’ہم اسے عبور کر لیں گے۔‘

رسول بخش رئیس نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھ کر عمران خان اور ان کی وفاقی حکومت کو مہنگائی اور ملک کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔

’کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ ملک میں چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو، نہ عمران خان کی اور نہ ہی موجودہ، لیکن انہوں (موجودہ حکمرانوں) نے عوام کو حقیقت بتانے سے گریز کیا اور صرف الزامات کی سیاست کی۔‘

ان كے خیال میں: ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی كو عوام كو قیمتوں میں اضافے كا باعث بننے والے عوامل سے متعلق سچ بتانا چاہیے تھا۔‘

سلیم صافی کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی بری کارکردگی تحریک انصاف کے دور اقتدار میں جنم لینے والی معاشی بدحالی کی وجہ سے ہے۔

’شہباز شریف حكومت نے گذشتہ حكمرانوں كی پیدا كردہ معاشی تباہی كو اپنے كاندھوں پر اٹھایا اور عوام کی نظروں میں مہنگائی اور دوسری بری چیزوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرے۔‘

آگے كیا ہونا چاہیے؟

سابق وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ رات ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس مقام سے آگے بڑھنے کا واحد راستہ  قابل اعتماد الیکشن کمیشن کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے جبکہ کوئی بھی دوسرا راستہ صرف سیاسی بے یقینی اور معاشی افراتفری کا باعث بنے گا۔

سیاسی مبصرین بھی پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں اگلا قدم عام انتخابات کے انعقاد کو ہی قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر ڈاكٹر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات میں وفاقی سطح پر بر سر اقتدار جماعت کی اتنی بڑی ہار کے بعد جلد از جلد عام انتخابات ہی موجودہ سیاسی صورت حال کا حل ہیں۔

ان کے خیال میں عام انتخابات کی صورت میں عمران خان کی جماعت پورے ملک میں تاریخی کامیابی حاصل کرے گی جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ختم ہو جائیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے کہا کہ عمران خان کو ماضی سے سیکھتے ہوئے وہی غلطیاں دہرانے سے گریز کرنا ہو گا۔

صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے پاس اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز ختم ہو گیا ہے اور اس صورت حال میں عام انتخابات کی طرف نہ جانا غیر جمہوری اور غیر منصفانہ عمل ہو گا۔

صحافی مہمل سرفراز کے خیال میں مسلم لیگ ن کو جلد انتخابات کی صورت میں کوئی سیاسی قیمت ادا بھی کرنا پڑے تو اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن گذشتہ چار سال سے ’ووٹ کو عزت‘ دو کا نعرہ لگا رہی ہے اور اب وقت ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کو عزت ملے۔

وصی بابا کے خیال میں ہر دو صورتوں میں حالات بہتری کی طرف جاتے ہوئے نہیں لگ رہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کے پاس ایک راستہ فوری عام انتخابات ہی ہیں، جبکہ دوسرا پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین توڑ کر چوہدری پرویز الٰہی کو حکومت بنانے سے روکنا ہو گا۔

’دونوں صورتوں میں ملک میں بے یقینی میں اضافہ ہو گا، خصوصاً معاشی طور پر سدھار کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔‘

وصی بابا نے مزید وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی مالی امداد مستحکم حکومت کی موجودگی میں ہی کریں گے اور موجودہ سسٹم ملک کو استحکام کی طرف لے جاتا ہوا نہیں لگ رہا۔

قمر زمان کائرہ کے خیال میں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ’غیر متوقع‘ نتائج کے بعد وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھے گا، ’تاہم دیکھنا ہو گا کہ سیاسی جماعتیں اس صورت حال سے کیسے نبرد آزما ہوتی اور کیا فیصلے کرتی ہیں؟‘

صحافی محمد مالک کا کہنا تھا کہ عمران خان جو چاہتے تھے وہ انہوں نے لیڈر کی حیثیت سے رہنمائی کر کے کیا۔

’دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کر عوام کو لیڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید كہا كہ ضمنی انتخابات كے بعد اب ملک كی تمام جماعتیں برابر آگئی ہیں اور عمران خان کے پاس دوبارہ اقتدار میں آنے کے ففٹی ففٹی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔

صحافی مزمل سہروردی کے خیال میں ’ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد اب ملک اور پنجاب میں اختیارات عمران خان کے پاس ہیں اور بیوروکریسی اب انہی کی طرف دیکھ رہی ہو گی۔‘

تاہم انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ عمران خان ملک کی سیاست میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے کے باوجود مخالفین کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ سے گریز کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست