مشرق وسطیٰ کے ممالک ’پسماندہ نظر آنے والے‘ غیر دوستانہ یا مغربی ممالک کے مخالف اور اپنی اقدار کے اظہار میں ناکام ہیں۔ ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج کے لیے کیے گئے ایک نئے سروے کے مطابق یہ تشویشناک اور فرسودہ تصورات چار مغربی ممالک یعنی برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی کے لوگوں کے ہیں۔
تاہم اسی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت سعودی عرب، مصر، عراق، لبنان اور تیونس کے عرب ’امریکہ اور اس کی آزادی اقدار، جدت اور مواقع کا احترام کرتے ہیں۔‘
ایک برطانوی بین الاقوامی انٹرنیٹ مارکیٹ ریسرچ اور ڈیٹا اینالیٹکس فرم یو گوو نے 20 مارچ سے 28 مارچ کے درمیان چار مغربی ممالک میں چھ ہزار 268 بالغ افراد کے آن لائن انٹرویوز کیے۔ جن میں سے امریکہ (1,418)، برطانیہ (1,780)، فرانس (1,065) اور جرمنی کے (2,005)افراد ہیں۔
دریں اثنا رائے عامہ کی رائے شماری اور تحقیقی تجزیہ میں ایک سرکردہ زوگبی ریسرچ سروسز نے 17 مارچ سے سات اپریل کے درمیان پانچ عرب ممالک مصر (1043)، عراق (1044)، لبنان (857)، سعودی عرب (1043) اور تیونس (869) میں 4856 بالغ افراد کے ساتھ آمنے سامنے انٹرویوز کیے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر شائع ہونے والے بروقت سروے اور اس کے ساتھ شائع ہونے والی ’ایک بار پھر سوچیں: نئے مشرق وسطیٰ کی جدیدکاری کے پس پردہ’ نامی رپورٹ خطے کے مغربی تصورات اور حقیقت کے درمیان خلیج کو اجاگر کرتی ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیراعظم اور بلیئر انسٹی ٹیوٹ کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین ٹونی بلیئر نے کہا کہ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لوگ خاص طور پر نوجوان ایسے معاشرے چاہتے ہیں جو مذہبی طور پر روادار، معاشی طور پر کاروباری اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہیں۔
’ان اصلاحات میں مصروف رہنماؤں کی حمایت کی جاتی ہے، جو لوگ مذہبی یا قبائلی اختلافات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، انہیں حمایت حاصل نہیں۔ اور سروے میں شامل ہر ملک میں مغرب خصوصاً امریکہ، یورپ اور برطانیہ کی رائے حیرت انگیز طور پر مثبت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سےمغربی رویے پیچھے ہیں۔ ہم اب بھی اس خطے کو پسماندہ، ناشائستہ اور اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔‘
اگرچہ مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں ان رویوں کے شواہد موجود ہیں لیکن پولنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ مغرب کے لیے خطرہ یہ ہے کہ خطے کے لوگوں کی سوچ کے متعلق ہماری فرسودہ غلط فہمی ہمیں عین اس وقت الگ کر دیتی ہے جب ہمارے لیے خطے اور اس کے جدید عناصر کے ساتھ شراکت داری کا موقع موجود ہے جس سے نہ صرف خطے بلکہ ہماری اپنی سلامتی کو فائدہ پہنچے گا۔
ادارے کی رپورٹ میں سعودی عرب میں سماجی پیش رفت کی طرف اشارہ کیا گیا جو ’تبدیلی کے لیے نئے مشرق وسطیٰ کے مشترکہ وژن‘ کی ایک مثال ہے لیکن رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ وژن اور اس کی پیش رفت کو مغربی شعور نے اب تک قبول نہیں کیا۔
مغربی رائے دہندگان میں سے نصف سے زیادہ کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لوگ ان جیسی اقدار مثلاً سیکولر سیاست کی حمایت اور فرق اور اظہار رائے کی آزادی کا احترام نہیں کرتے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک آگے بڑھنے والا خطہ ہے جس کی خصوصیت امید ہے، بجائے اس کے کہ مشرق وسطیٰ کو ناہموار تنازعہ اور پرتشدد انتہا پسندی سے جوڑ دیا جائے۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں رہنے والے لوگوں کے نقطہ نظر سے ’نیا مشرق وسطیٰ بالکل مختلف جگہ ہے۔‘
مثال کے طور پر، ’بھاری اکثریت سعودی جدیدکاری پروگرام اور اس جیسے دیگر کی حمایت کرتی ہے جو اداروں کی اصلاح کر رہے ہیں، معاشرے کو آزاد اور معیشت کو متنوع بنا رہے ہیں۔‘
اسی طرح ’اکثریت رجعت پسند مذہبی تحریکوں اور سیاست میں ان کے کردار کی مخالف ہے۔‘
رپورٹ میں سعودی عرب کے جدیدکاری پروگرام کی تعریف کی گئی ہے جس کی حمایت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے مستقبل کے لیے وژن 2030 کے تحت کی ہے اور اسے ’نوآبادیاتی دور کے بعد کا سب سے جامع، علاقائی طور پر چلایا جانے والا اور تبدیلی لانے والا ایجنڈا‘ قرار دیا گیا ہے۔
ملک کے قوانین اور پالیسیوں کو لبرل بنانے سے لے کر معیشت کو متنوع بنانے تک خطے بھر میں رائے شماری کرنے والے 73 فیصد افراد نے کہا کہ وہ تبدیلی لانے والے ان اقدامات کی حمایت کرتے ہیں جن میں خود 89 فیصد سعودی بھی شامل ہیں۔
سروے میں سعودی معاشرے کی بدلتی ہوئی نوعیت کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے جس میں مذہبی حکام کا کم ہوتا اثر و رسوخ بھی شامل ہے۔
تعلیمی اصلاحات اور مذہب کا کردار خطے کے پانچوں ممالک میں رائے شماری کرنے والے تقریباً ہر شخص کے لیے اہم مسائل ہیں۔ 77 فیصد عراقی، 73 فیصد سعودی، 71 فیصد تیونس اور 65 فیصد لبنانی سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک کی مذہبی تعلیم اور طریقوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آج 75 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سیاست زدہ مذہبی تحریکیں خطے کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘
سعودی عرب میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے جو 80 فیصد ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ سعودی عرب کے حکام، قانون سازوں اور مذہبی علما نے ’خواتین کے حقوق، عدالتی نظام (اور) سنسر شپ قوانین کو جدید بنانے اور صنفی علیحدگی کے قوانین سمیت سماجی پابندیاں ختم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔‘
سعودی شہریوں کی اکثریت معیشت کو جدید بنانے اور متنوع بنانے کے عمل کو ’اولین ترجیح‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔
ان شہریوں میں سے 60 فیصد کے نزدیک ٹیکنالوجی اور اختراع اور 44 فیصد سیاحت کو روزگار پیدا کرنے کے مثالی شعبے سمجھتے ہیں۔ ملک میں جن لوگوں پر سروے کیا گیا ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کے لیے مذہبی تعلیم کی بجائے تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے حق میں ہیں۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ سعودی حکومت کی مستقبل کے بارے میں سوچ اور اقدامات اپنے شہریوں کے خیالات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں، کیوں کہ ملک تیل کو چھوڑ کر شعبوں کی صلاحیت کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر 2021 میں 2020 کے مقابلے میں نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمائے کی فراہمی میں 54 فیصد اضافہ ہوا اور اطلاعات و مواصلات کیک ٹیکنالوجی میں 33 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اب سعودی عرب کے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تین لاکھ سے زیادہ ملازمتیں موجود ہیں۔
گلوبل انٹرپرینیورشپ کانگریس نے ملک میں اقتصادی اور ضابطے کی پابندیوں کے حوالے سے منظر نامے کو 45 ممالک میں کاروباری سٹارٹ اپس کے لیے بہترین ماحول قرار دیا ہے۔
خواتین کے حقوق کے معاملے میں دو سے ایک کے فرق کے ساتھ سعودیوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ خواتین کو نجی اور سرکاری شعبوں میں مردوں کی طرح روزگار کے حقوق حاصل ہونے چاہییں۔
وژن 2030 کے مطابق 2030 تک خواتین کم از کم 30 فیصد افرادی قوت پر مشتمل ہوں گی جب کہ ملک میں خواتین کی معاشی شرکت 2017 میں 19.4 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 33 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔
رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس تمام پیش رفت کو سعودی عرب میں پذیرائی ملی ہے۔ بلیئر انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اس پیش رفت کو مغرب اور خاص طور پر امریکہ کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوستی، اقتصادی اور فوجی تعاون جو 1945 میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ اور سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کے درمیان مصر کی نہر سویز میں موجود امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ہونے والی ملاقات سے شروع ہوا اس کی عکاسی کرتے ہوئے ’سعودی شہری امریکہ کو اپنے منتخب کردہ عالمی شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں، دہائیوں جاری رہنے والے ان مغربی مفروضوں کے باوجود کہ امریکہ کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
سروے میں سعودی جواب دہندگان نے ملک کے اعتبار سے چین، امریکہ اور برطانیہ کی سب سے زیادہ حمایت کی، لیکن 66 فیصد نے کہا کہ وہ سب سے زیادہ یہ چاہیں گے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ شراکت داری قائم کرے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جب ملک اور اس کے عوام معاشرے اور معیشت کو تبدیل کرنے کے لیے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو ’اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملک کے مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کریں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب نوجوانوں کی خوشی کے لیے مغربی ثقافت کو اپناتے ہوئے کس مہارت کے ساتھ اپنے ورثے کے تحفظ اور فروغ کو متوازن بنا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’کبھی رجعت پسند سعودی عرب‘ میں ’ویژن 2030 میں ثقافتی اظہار کے تین مقاصد کو ترجیح دی گئی ہے۔ رواداری، پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط، انصاف اور شفافیت کا فروغ، سعودی، عرب اور اسلامی ثقافتی ورثے اور تاریخ کا تحفظ اور قومی تشخص کا تحفظ اور فروغ تاکہ اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا جاسکے۔‘
’تجارتی مضمرات‘ بھی پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب عالمی فکر اپناتے ہوئے اپنے تہواروں، فنون لطیفہ اور عجائب گھروں کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ ثقافتی شعبے سے توقع ہے کہ اس میں 20 ارب ڈالر کی آمدن ہو گی۔ وہ ایک لاکھ ملازمتیں پیدا کرے گا اور 2030 تک مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصہ تین فیصد ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’موسیقی میلے اور کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔‘
رپورٹ میں گذشتہ سال کے موسیقی کے پروگرام ایم ڈی ایل بیسٹ ساؤنڈ سٹورم فیسٹیول کا حوالہ دیا گیا ہے جو دارالحکومت ریاض کے باہر صحرا میں منعقد کیا گیا تھا اور اس نے سات لاکھ سے زیادہ عالمی سامعین کی توجہ حاصل کی تھی۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ سعودی عرب نے اپنی قومی ’ثقافتی تبدیلی‘ کے حصے کے طور پر بین الاقوامی فنکاروں کو دورے کی ترغیب دینے کے لیے نئی ویزا سکیم اور فنکاروں کو مستقل طور پر آباد ہونے کی سہولت دینے کے لیے رہائشی پروگرام متعارف کروائے ہیں۔‘
’اس کا مقصد ثقافتی تبادلے کی آزادی کا فروغ اور فنون لطیفہ اور ثقافت کے شعبے میں تیزی لانے کے لیے ملکی منصوبے اجاگر کرنا ہے۔‘
بلیئر انسٹی ٹیوٹ کے لیے سروے کرنے والی بین الاقوامی پولنگ فرم زوگبی ریسرچ سروسز کے مینیجنگ ڈائریکٹر جیمز زوگبی نے رپورٹ کے پیش لفظ میں کہا ہے کہ عرب دنیا کے بارے میں مغربی تصورات ’اکثر منفی دقیانوسی تصورات اور افسانوی شواہد سے تشکیل پاتے ہیں جو حقیقت کی بجائے تعصب پر مبنی خیالات کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’عرب کون ہیں اور ان کی کیا اقدار اور خواہشات ہیں اس بارے میں ہم ادراک نہیں کر پاتے۔‘
مغربی پالیسی ساز اور سیاسی تجزیہ کار ’عربوں پر عربوں کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن وہ عربوں کی زندگیوں اور مستقبل کے بارے میں ان کی ضروریات اور امیدوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے ان کی بات سننے پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔‘
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ’پیچیدہ خطے کو حد سے زیادہ آسان بنا دیا گیا ہے جس کا نتیجہ پالیسی کی مہنگی پڑنے والی ناکامیوں کی صورت میں نکلا۔ ان ناکامیوں کے اعتراف اور منفی تصورات کے سبب وجود میں آنے والے رویوں کی وجہ سے اب بھی رکاوٹ کا سامنا کرنے والی مغرب میں کچھ آوازیں اب خطے سے لاتعلقی کے حق میں استدلال کرتی ہیں۔‘
زوگبی کے پاس مغربی پالیسی سازوں اور سیاسی پنڈتوں کے لیے یہ پیغام تھا۔ ’پہلے اپنے تعصبات کی جانچ کریں اور عرب ہمیں جو کچھ بتا رہے ہیں وہ سنیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔‘
’جیسا کہ میری والدہ مجھ سے کہتی تھیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کی بات سنیں تو آپ کو پہلے ان کی بات سننی چاہیے۔‘
انسٹی ٹیوٹ کی بدولت ’عرب آوازیں آپ سے بات کر رہی ہیں۔ وہ جو کہہ رہی ہیں وہ سنیں۔‘