کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ایک 11 سالہ چھوٹی لڑکی اس صدی کے عظیم سائنسدان آئن سٹائن اور اس دنیا کا راز پانے اور بگ بینگ کا نظریہ دینے والے سٹیفن ہاکنگ کو ذہانت کے امتحان آئی کیو ٹیسٹ میں مات دے دے گی۔ ایرانی بچی تارہ شریفی نے مینسا ٹیسٹ میں ایسی کامیابی حاصل کی جس نے آکسفورڈ کے ماہرین کو حیران کر دیا۔
کہتے ہیں ذہانت کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ کسی معاشرے کو پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے میں تعلیم سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کے فروغ اور دنیا میں نام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں اور ان کی راہ بیچ کھڑی رکاوٹوں کو دور کریں اور اس کے لیے سب سے ضروری چیز اپنے بچوں پر اعتماد ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد۔ والدین کے ایسے ہی اعتماد نے ایک بچی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
تارہ شریفی آئلز بر ہائی سکول انگلینڈ کی طالبہ اکثر اپنے گھر میں ٹی وی پر چلنے والے کوئز اور ذہانی آزمائش کے پروگراموں کو دیکھتے ہوئے مقابلے میں حصہ لینے والوں سے قبل ہی صحیح جواب دے دیا کرتی تھیں۔ اسی بات نے ان کے والدین کو متاثر کیا۔ ان کے والدین نے فیصلہ کیا کہ ان کو مئی میں آکسفورڈ میں ہونے والے مینسا ٹیسٹ کے مقابلے میں حصہ لینا چاہئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ٹیسٹ دراصل میتھمیٹکس کے امتحان اور سوالات پر مبنی ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے طالب علموں کا آئی کیو لیول چیک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نان وربل ٹیسٹ ہے جس میں طلبا کو ایک خاص وقت کے اندر چند سوالوں کے جواب دینا ہوتے ہیں۔ اس امتحان میں سارا عمل دخل لاجکل ریزننگ کا ہوتا ہے۔ یہ پانچ سے چھ راونڈز پر مشتمل ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اور ہر راونڈ میں ایک خاص دورانئے کے بیچ ہر سوال کے ایک سے زائد جواب ہوتے ہیں جن پر آپ کلک کرنا ہوتا ہے۔ مینسا دراصل دنیا کی سب سے پرانی آئی کیو لیول سوسائیٹی سمجھی جاتی ہے۔ مینسا میں شامل ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کا آئی کیو عمومی سطح پر بھی 98 فیصد سے اوپر ہو۔
تارہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنا نتیجہ سن کر حیران رہ گئیں۔ ان کے والدین بھی اس بات پر دنگ رہ گئے کہ ان کی بیٹی نے دنیا کے سب سے بڑے جینئس اور عالمی شہرت یافتہ سائنسدان اور انٹیلکچول کو 162 نمبر حاصل کر کے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ اب تک کا سب سے زیادہ اسکور آئن سٹائن کا تھا جو کہ 140 تھا۔ تارہ کے متعلق بہت کم لکھا گیا بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے۔ ان کے والدین کا کہنا یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تارہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ بھی تارہ کی طرح آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کو شکست دے دیں لیکن ٹھہرئے اس کے لیے آپ کو صرف ذہانت نہیں بلکہ ایسے والدین اور ایسے معاشرے کی بھی ضرورت ہوگی جو آپ پر اعتماد کرتے ہوں اور جہاں لڑکی ہونے کے باوجود آگے بڑھنے اور ہر امتحان میں حصہ لینے کے مواقع ملتے ہوں۔