جینیفر لوپیز نے بن ایفلیک سے شادی کے بعد بظاہر اپنا آخری نام تبدیل کر لیا ہے، اور میں اس وقت سے ابہام کا شکار ہوں۔
گلوکارہ، اداکارہ اور ہمہ جہت مشہور شخصیت نے اتوار (17 جولائی) کو سبسکرائبرز کو بھیجے گئے اپنے ’On The JLo‘ نیوز لیٹر کے تازہ ترین ایڈیشن میں تبدیلی کا اعلان کیا۔
انہوں نے لاس ویگاس میں شادی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے کر لی۔ پیار خوبصورت ہے۔ محبت مہربان ہے۔ اور یہ پتہ چلتا ہے کہ محبت صبر ہے۔ 20 سال کا صبر۔ ہم آدھی رات کو بمشکل چھوٹے سفید چرچ تک پہنچے۔‘
میں یہ خبر سننے کے بعد متضاد احساس سے گزر رہی ہوں، کیونکہ میں اس امید سے چمٹی ہوئی ہوں کہ شادی زیادہ ترقی پذیر ہے – کم از کم جہاں تک خواتین کا تعلق ہے۔ اور میں اکیلی نہیں ہوں۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق شادی کے بعد اپنی شریک حیات کی کنیت کے ساتھ پیدائشی نام شامل کرنے کا انتخاب کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈیڈ پول آفس نے، ایک قانونی فرم جو ناموں کی تبدیلی میں مہارت رکھتی ہے، اعدادوشمار جاری کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوبیاہتا جوڑے کی جانب سے اپنے پہلے ناموں کو اپنی شریک حیات کی کنیت کے ساتھ رکھنے کی درخواستوں میں 2020 اور 2021 کے درمیان 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
آخر کار، ایسا لگتا ہے کہ خواتین بڑھ رہی ہیں – اور میری رائے میں، یہ اتنی جلدی نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال، یہ 2022 ہے: کسی بھی عورت کو اپنے شوہر کے لیے اپنی شناخت نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ہم کسی کا ذاتی اثاثہ نہیں ہیں۔
اور میں تجربے سے بات کر رہی ہوں کیونکہ میں بھی اپنے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کی طرح شادی کی متضاد رسومات سے گزری ہوں۔ جب میں نے 2009 میں شادی کی تو میں نے اپنے پاسپورٹ پر جی پی سرجری کے ساتھ اپنے سرکاری ریکارڈ پر اپنا آخری نام تبدیل کر کے اپنے شوہر کا رکھا۔ لیکن یہ کبھی ٹھیک محسوس نہیں ہوا۔ یہ کبھی بھی ’میں‘ جیسا محسوس نہیں ہوا۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے پاس 30 سال تک میرا نام اپنی شناخت تھی۔ پھر راتوں رات مجھ سے توقع کی جا رہی تھی کہ میں کوئی اور بن جاؤں۔
اس کا بالکل بھی کوئی مطلب نہیں تھا: میں پہلے ہی اپنے (اس وقت) شوہر کے خاندان کا حصہ تھی تو مجھے اس نام کو ترک کرنے کی کیا ضرورت تھی جو میرے ساتھ پیدائش سے آیا تھا؟ اور اس طرح میں نے اسے درست کیا (یا، جیسا کہ میں اسے دیکھ رہی ہوں: ایک غلط کو درست کیا)۔ میں نے اپنا نام ڈیڈ پول کے ذریعے 36 پاونڈز کی معمولی رقم سے تبدیل کر دیا – اور فوری طور پر دوبارہ ’میں‘ جیسا محسوس ہوا۔ میں ہر عورت سے یہی کہوں گی۔
ہماری شناخت سب سے اہم ہے - تو پھر خواتین انہیں اتنی آسانی سے کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟ میرے پاس کوئی سادہ یا ہر جگہ جواب نہیں ہے، لیکن میں آپ کو بتا سکتی ہوں کہ میں شادی کے 10 سال بعد کیا سوچتی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مکمل طور پر ’روایات‘ کے تصور میں گرفتار تھی۔ محبت اور ’ایک بننے‘ کے ڈزنی کے تصور میں بہہ گئی جو عملی طور پر پیدائش سے ہی چھوٹی لڑکیوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ہم اس کے بارے میں گانے سنتے ہیں، اس کے بارے میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اسے سلیپنگ بیوٹی، سنڈریلا اور بیوٹی اینڈ دی بیسٹ جیسی پریوں کی کہانیوں میں گونجتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ ہمیں ایک پرنس چارمنگ کے سامنے گر جانے کی خواہش سکھائی جاتی ہے۔ خاندان کی خاطر اپنی انفرادی شناخت کو ترک کرنا۔ چھوٹی لڑکیوں کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک مرد کو – اپنے شوہر کے حوالے – کرنے کا مطلب ہے ’رومانس‘، جو حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
درحقیقت شادی کا مطلب کبھی بھی محبت اور لڑائی، احساس کی چکرا جانے والی طاقت، ایک ’روحانی ساتھی‘ کو تلاش کرنا نہیں تھا۔ شادی کا اصل معنی قبضہ تھا۔ شادی خواتین کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، عورت کی ذمہ داری باپ سے شوہر کو منتقل کرنا تھی۔
میں شادی کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ذاتی انتخاب کرنے کے ہر عورت کے حق کی حمایت کرتی ہوں - لیکن میرا پختہ یقین ہے کہ کسی بھی عورت کو اپنے شوہر کا نام نہیں لینا چاہیے۔ یہ ایک پرانی روایت ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صرف نقصان دہ صنفی دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتی ہے۔
ذرا دیکھیں کہ ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جب ہم انہیں سخت معاشرتی کردار نبھانے کا کہتے ہیں: لیگو کے برطانیہ، امریکہ، چین، جاپان، پولینڈ، جمہوریہ چیک اور روس میں تقریباً سات ہزار والدین اور 6-14 سال کی عمر کے بچوں کے بارے میں تشویشناک تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ لڑکیوں میں اعتماد بڑھ رہا تھا اور وہ بہت سی سرگرمیوں کو تلاش کرنے کے خواہش مند تھیں لیکن لڑکوں کے بارے میں بھی ایسا نہیں تھا - درحقیقت 71 فیصد لڑکوں کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ’لڑکیوں کے کھلونے‘ کے ساتھ کھیلے تو ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔
2019 میں فاوسیٹ سوسائٹی نے تحقیق شائع کی جس میں ابتدائی بچپن میں صنفی دقیانوسی تصورات کے کیریئر کے انتخاب اور ذاتی تعلقات دونوں پر قابل ذکر تاحیات اثرات کو دکھایا گیا۔ ایک تحقیق میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ناچنے یا ڈریس اپ کرنے کی کوشش کریں، اور تین گنا زیادہ امکان ہے کہ وہ بیکنگ کرنے کی کوشش کریں، جب کہ لڑکوں کو کھیلوں یا سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی ترغیب دی گئی۔
یہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں کہ ہم اپنے بچوں کو کیا سیکھا رہے ہیں۔ بہرحال عورتوں کی جانب نفرت مردوں اور عورتوں دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے - اور شادی کی جڑ میساجنی میں ہے۔
مجھ پر یقین نہیں ہے؟ ذرا اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ اس ملک (برطانیہ) میں شادی کرنے پر خواتین نے مکان اور (کچھ معاملات میں) رشتہ دار کی دولت حاصل کی، لیکن اپنی شناخت کا حق کھو دیا۔ ان کے شوہر ان کے قانونی سرپرست بن گئے، ’جب تک موت ہمیں الگ نہیں کرتی۔‘ یہی وہ وراثت ہے جس کی وجہ سے خواتین نے اپنا نام چھوڑ دیا – تو پھر ہم آج کے ترقی پسند اور روشن خیال معاشرے میں اسے برقرار رکھنے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب میں سہیلیوں سے ان کے نام تبدیل کرنے کی وجہ پوچھتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں جیسا آخری نام چاہتی ہیں۔ یا وہ ایک ’متحد‘ یا ’خاندانی اکائی‘ کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں – لیکن یہ بات مجھے پھر بھی پریشان کرتی ہے کیونکہ یہ صرف ایک اور طریقہ ہے جس میں خواتین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی شناخت کو چھوڑ کر اپنے شریک حیات کے ساتھ ضم ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ماؤں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ان کے بچوں کے نکاح نامے پر (جب شکر ہے کہ 2021 میں تبدیلی آئی) اپنے نام رکھنے کے حق سے دستبردار ہوجائیں۔
یقیناً ایسے لوگ ہیں جو اپنا نام رکھتے ہیں، اور وہ لوگ جو ایک خوش آئند نئی ترتیب کے ساتھ آتے ہیں جیسے کہ ٹویٹر پر وہ جوڑے جنہوں نے کنیتوں ’تبادلہ‘ کیا؛ یا وہ جوڑے جن کو میں جانتی ہوں جنہوں نے ایک دوسرے کے نام لیے ہیں تاکہ وہ دونوں ہائفنیٹڈ رہیں۔ کہیں اور جیسے کہ نیدرلینڈز میں آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کون سا نام استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سویڈن میں خواتین روایتی طور پر اپنا دیا ہوا خاندانی نام رکھتی ہیں۔ برطانوی ٹی وی میزبان اور مصنفہ ڈان او پورٹر شاید اس روایت کی منفرد انداز کی سب سے مشہور مثال ہے: جب انہوں نے کرس او ڈاؤڈ سے شادی کی تو اپنے نام میں ’او‘ کا اضافہ کر لیا۔
میں ان لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں جو روایت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے کہ لیوس ہیملٹن – سات بار کے عالمی چیمپئن نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کنیت کے احترام کے لیے اپنا نام تبدیل کر رہے ہیں: Larbalestier۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ جزوی طور پر کیا ہے ’کیونکہ میں اس پورے خیال کو پوری طرح سے نہیں سمجھتا کہ جب لوگ شادی کرتے ہیں تو عورت اپنا نام کیوں کھو دیتی ہے‘۔ کاش تمام برطانوی اتنے ترقی پسند ہوتے۔
اگر میں آپ کو ابھی تک قائل نہیں کر سکی ہے تو شیکسپیئر کے اب تک کے سب سے زیادہ رومانوی ڈرامے ’رومیو اینڈ جولیٹ‘ میں پوچھے گئے سوال کے بارے میں سوچیں : ’نام میں کیا ہے؟‘ میں تکرار کروں گی کہ نہیں دراصل اس میں بہت کچھ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہم نے ان حوصلہ افزا اعدادوشمار کے ساتھ کچھ پیش رفت کی ہو کہ خواتین اپنے نام کو ڈبل کرنے یا اپنے نام کو برقرار رکھنے کا انتخاب کرتی ہیں، نیز سرکاری دستاویزات میں ماؤں کے ناموں کو شامل کرنے کے بارے میں، لیکن ہمیں فرسودہ، پدرانہ رسم و رواج میں تبدیلی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
تبدیلی معاشرے کی سطح پر ہونے کی ضرورت ہے اور اسے فطری ہونا چاہیے۔ اب یہ خواتین پر ہے کہ ’میں نہیں کرتی‘۔
نوٹ: اس موضوع کے بارے میں آپ اگر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو ادارہ کو [email protected] پر لکھ کر بھیجیں۔
© The Independent