لاڑکانہ سمیت بالائی سندھ اور بلوچستان کے جنوب مشرقی علاقوں کا درجہ حرارت موسم گرما میں 50 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے تو گرمی کے موسم کے آغاز سے ان علاقوں کی شاہراہوں کے مختلف مقامات پر رنگ برنگے سٹال سج جاتے ہیں جس میں خودساختہ طور پر تیار کردہ مشروب تھادل فروخت کیا جاتا ہے۔
تھادل سندھی زبان کے لفظ ’تھد‘ سے اخذ کردہ ہے جس کے معنی ٹھنڈ ہیں۔ سندھ میں عمومی طور پر تھادل کو گرمی کا توڑ سمجھا جاتا ہے۔
پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے مقامی افراد اس مشروب کو بہترین ذائقے کے ساتھ تیار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ سندھ میں سجنے والے زیادہ تر تھادل کے سٹال اسی علاقے سے آنے والے افراد لگاتے ہیں۔
لاڑکانہ میں اسی ایک سٹال کے مالک نصیر نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے گاؤں کے دیگر افراد اسی پیشے سے منسلک ہیں اور وہ گرمیوں کے ایام میں اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے بیشتر علاقوں میں جا کر شاہراہوں پر یہ سٹالز سجاتے ہیں جہاں سفر کرتے ہوئے لوگ ان کے تیار کردہ مشروب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
تھادل کو تیار کرنے کے لیے خسخاس، کالی مرچ، زیرہ، صونف، بادام، اور چار معز سمیت مختلف جڑی بوٹیوں کا استعمال ہوتا ہے۔
تمام اجزا کو مشین سے منسلک ایک سراہی نما دیگ میں ڈال لیا جاتا ہے، جب مشین ان تمام اجزا کو پیستی ہے تو یہ دودھیہ رنگت کے پیسٹ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے پانی میں ڈال کر، ہلکے سے میٹھے شربت کی مٹھاس دے کر برف سے ٹھنڈا کر کے کسٹمر کو پیش کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نصیر کے مطابق ایک سٹال تقریباً چار سے پانچ ماہ کے دوران ایک سے ڈیڈھ لاکھ روپے کی آمدنی کماتا ہے۔
اس کاروبار سے منسلک افراد سال کے دیگر مہینوں میں روزگار کے دیگر مواقع تلاش کرتے ہیں تاہم موسم گرما آتے ہی وہ واپس اپنے سٹالز والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تھادل سٹالز پر رک کر مشروب سے لطف اندوز ہونے والے چند افراد گاڑھی تھادل پینا پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے تھادل کے میزے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر تیار کردہ تھادل میں ڈبو کر برائے راست کسٹمر کے گلاس میں نچوڑا جاتا ہے، جس سے پانی میں تھادل کے میزے کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور گلاس گاڑھی تھادل سے بھر جاتا ہے۔
تھادل سٹالز مالکان گاہکوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے مختلف خوبصورت مہاوروں اور تھادل کی تیاری میں شامل ہونے والے اجزا کی تصاویر پینافلیکسز پر سجا کر آویزاں کرتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہر گزرتے سال گرمی کی شدت میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن تھادل کے سالہا سال پرانے ذائقے میں شاید کسی تبدیلی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ لوگ اسے ایسے ہی پسند کرتے ہیں جیسا کہ یہ سالوں سے تیار کیا جا رہا ہے۔