وفاقی حکومت نے پیر کو پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کے ایک جج پر سنگین الزامات کی تحقیقات خود کرنے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اپنی پارٹی کی اعلی قیادت کی موجودگی میں ہفتہ کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے والد کو دباؤ میں آ کر سزا سنائی گی۔
اسی روز وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے ایک تقریب کے دوران میڈیا سے خطاب میں کہا تھا کہ مبینہ ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتا لگانے کے لیے حکومت اس کا فرنزک معائنہ کرائے گی۔
تاہم پیر کو وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا حکومت پورے معاملے کی تحقیقات کے حق میں ہے لیکن اگر حکومت نے معاملے کی خود چھان بین کی تو اپوزیشن کو اعتراض کرنے کا موقع ملے گا لہذا بہتر ہو گا کہ اعلی عدلیہ خود اس معاملے کا نوٹس لے۔
مریم نواز کی پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز جج ارشد ملک کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ویڈیو کو جعلی، مفروضی قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان کے بیانات کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متنازع ویڈیو کی فرانزک کے لیے حکومتی احکامات کے حوالے سے جب فیڈرل تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر بشیر میمن سے رابطہ کیا تو انہوں نے بات کرنے سے اجتناب کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، ایف آئی اے کی فرانزک لیب کے عہدے دار امجد کلیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا اس حوالے سے تاحال حکومت کی ہدایات موصول نہیں ہوئیں اور اگر کوئی حکم آیا تو ویڈیو کا معائنہ کر کے رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔
حکومت ویڈیو فرانزک کیوں نہیں کرانا چاہتی؟
سینیئر صحافی عمران یعقوب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئےکہا انہیں شریف خاندان کے ذرائع نے بتایاکہ ویڈیو کا برطانیہ کی معروف کمپنی سے پہلے ہی فرانزک معائنہ کرا لیا گیاہےاور رپورٹ بھی ان کے پاس موجود ہے۔
انہوں نے کہا جب سے احتساب جج ملک ارشد کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے حکومت صرف دعویٰ کر رہی ہے کہ تحقیقات کرائیں گے جبکہ ن لیگی رہنما خود مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کی سپریم کورٹ کی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں۔
شہزاد اکبر کی جانب سے معاملے کی حکومتی تحقیقات کے انکار کے بعد سوال یہ کہ
جج کس سے شکایت کرے؟
اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر مسرور شاہ کہتے ہیں: کسی جج کے پاس ایک سے زیادہ فورم موجود ہوتے ہیں۔ جہاں وہ کسی بھی قسم کے دباؤ کی صورت میں اطلاع پہنچا سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا انتظامی طور پر وفاقی دارالحکومت میں کام کرنے والی احتساب عدالتیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ما تحت ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے کسی ایسی صورت حال میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو مطلع کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح انہوں نے کہا کہ احتساب عدالتوں کے انسپکشن جج بھی موجود ہیں۔ ’ارشد ملک صاحب ان کو بھی شکایت پہنچا سکتے تھے۔‘
وکیل کامران مرتضی نے بتایا احتساب عدالت میں العزیزیہ کرپشن ریفرنس کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کو نگرانی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کسی بھی دباؤ یا رشوت کی پیشکش کی صورت میں جج ارشد ملک جسٹس اعجازالحسن سے بھی رجوع کر سکتے تھے۔
کیا الزام لگنے پر جج مقدمے سے دستبردار ہو جائے؟
کامران مرتضی کہتے ہیں جج کا عہدہ باعزت ہونے کے ساتھ ساتھ نازک بھی بہت ہوتا ہے۔ ’موکل جج کی مبینہ بری شہرت کے باعث کہہ سکتے ہیں کہ آپ میرا مقدمہ نہ سنیں۔‘
بیرسٹر مسرور شاہ کہتے ہیں موکل کے اعتراض کی صورت میں جج پر کوئی قانونی قدغن نہیں کہ وہ مقدمہ سنیں یا نہ سنیں، لیکن عام طور پر جج صاحبان ایسی صورت حال میں خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا: یہ معاملہ قانونی کم اور اخلاقی زیادہ ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ جج صاحبان نے اعتراض ہونے پرخود کو مقدمات سے الگ کیا۔
انہوں نے مزید کہا اعلیٰ عدلیہ بھی کسی جج پر اعتراض یا الزام کی صورت میں انہیں کام کرنے سے روک سکتی ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے ملازمہ پر تشدد کیس کا حوالہ دیا، جس میں ملزم جج سے عدالتی ذمہ داریاں واپس لے لی گئیں تھیں۔
جج کے خلاف کون کیا کارروائی کر سکتا ہے؟
کامران مرتضی کے مطابق سب سے پہلے مذکورہ جج صاحب کو شوکاز نوٹس دیا جائے گا، جس کا وہ جواب دیں گے، اور اگر ان کا جواب غیر تسلی بخش پایا گیا تو ان کے خلاف تحقیقات شروع کی جائیں گی جس کا نتیجہ آنے پر کوئی حتمی فیصلہ ہو گا۔
بیرسٹر مسرور شاہ نے بتایا چونکہ مذکورہ جج وفاقی دارالحکومت میں کام کر رہے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یہ کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا اس عدالت کے مانیٹرنگ جج بھی اس میں پہل کر سکتے ہیں، یہ ان کی بھی شہرت کا سوال ہے۔
کامران مرتضی کے مطابق اس سارے قصے میں عدلیہ کی شہرت بحیثیت ادارہ متاثر ہو سکتی ہے لہذا سپریم کورٹ بھی آئین کے آرٹیکل 184کے تحت ازخود نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔
بیرسٹر مسرور شاہ کا کہنا ہے الزام کی زد میں آنے والے جج کی عدالت میں زیر التوا کیس کا کوئی بھی موکل اعلیٰ عدلیہ میں رٹ کے ذریعے اس جج کو ہٹانے کی درخواست کر سکتا ہیں۔
اسی طرح انہوں نے کہا ایسے جج کی عدالت سے سزا یافتہ مجرم بھی اعلیٰ عدالت میں رٹ دائر کر سکتے ہیں یا اپیلیٹ کورٹ کی توجہ متفرق درخواست کے ذریعے اس طرف دلوا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اس وقت العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کے سٹیج پر ہیں۔ وہ اسی اپیلیٹ کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے احتساب کورٹ کے مذکورہ جج کی مبینہ غیر جانبداری پر سوال اٹھا سکتے ہیں۔
جج ارشد ملک کی عدالت میں اہم مقدمات
اسلام آباد میں احتساب جج ارشد ملک کی عدالت میں جو مقدمات زیر التوا ہیں ان میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس سر فہرست ہے، دونوں بہن بھائی اسی مقدمے میں گرفتار ہیں۔
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف کرائے کے بجلی گھروں کا مقدمہ بھی جج ارشد ملک کی عدالت میں زیر التوا ہے۔
یہی عدالت ایک دوسرے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف قومی احتساب بیورو کے قائم کردہ ریفرنس کی سماعت بھی کر رہی ہے۔
جنرل (ریٹارڈ) پرویز مشرف کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی کرپشن کا ایک کیس اسی عدالت میں زیر التوا ہے۔
جج ارشد ملک کی عدالت نے جون میں تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان کو نندی پورپاور پراجیکٹ کے مقدمے میں بری کیا۔ نیب نے اس فیصلے کے خلاف اسلام ہائی کورٹ میں اپیل کی ہوئی ہے۔