سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کراچی میں بسنے والے گوان مسیحی اپنا روایتی تہوار نہیں بھولے جس میں موسیقی، رقص، روایتی گوان کھانوں کے اہتمام کے ساتھ بارشوں کے لیے بھی دعا مانگی جاتی ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کی کئی ریاستوں سے مختلف زبانیں بولنے والے افراد بڑی تعداد میں اچھے کاروبار کے لیے کراچی آتے تھے۔
ان میں سے کئی برادریوں کے لوگوں نے قیام پاکستان کے بعد واپس اپنی آبائی ریاست جانے کی بجائے کراچی میں بسنے کو ترجیح دی۔
ایسی ہی ایک برادری میں بھارت کی تاریخی ریاست گوا سے تعلق رکھنے والے گوان مسیحی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں گوان مسیحیوں کی تنظیم گوان کار اون اکیڈمی کراچی کے صدر پیٹر مینڈس کے مطابق قیام پاکستان کے وقت کراچی میں 20 ہزار سے زائد گوان مسیحی قیام پذیر تھے۔ مگر اب صرف تین ہزار کے قریب گوان مسیحی کراچی میں بستے ہیں۔
پیٹر مینڈس کے مطابق برادری میں مسیحیت کی مقدس شخصیت سینٹ جان کے نام سے منسوب مذہبی تہوار ’سان جاو‘ ہر سال جون میں منایا جاتا ہے، جس میں روایتی گوان موسیقی اور رقص کے ساتھ روایتی کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بارشوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔
پیٹر مینڈس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گوا میں لوگوں کی اکثریت کھیتی باڑی سے منسلک تھی اور جون تک فصلوں کے لیے پانی نہیں ہوتا تھا اور کھیتوں کے کنویں بھی سوکھ جاتے تھے۔ ایسے میں یہ تہوار منا کر بارش کے لیے دعا کی جاتی تھی۔‘
ایک سوال کے جواب میں پیٹر مینڈس نے بتایا کہ ان کی برادری کے نوجوانوں کی اکثریت بہتر مستقبل کے لیے کراچی سے نقل مکانی کرکے امریکہ، کینیڈا اور دیگر ممالک جارہی ہے۔
’اس لیے کراچی میں گوان مسیحیوں کی تعداد قیام پاکستان سے قبل 20 ہزار سے سے گھٹ کر اب صرف تین ہزار تک رہ گئی ہے۔‘
بھارتی ریاست گوا میں یہ تہوار آج بھی منایا جاتا ہے، جس کی تاریخ یہاں بسنے والے پرتگالی افراد سے جڑی ہے۔
گوا 1510 سے 1961 تک پرتگال کی کالونی رہا تھا، جہاں زیادہ اکثریت کیتھولک مسیحیوں کی ہے۔
یہ تہوار مسیحی مقدس شخصیت سینٹ جان کی یاد میں بھی منایا جاتا ہے۔
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق گوا میں سان جاو فیسٹیول میں پھلوں، پھلوں اور پتوں کے تاج بنائے جاتے ہیں، جبکہ اس میں لوگ فواروں، دریاوں، تالابوں یا کنووں میں چھلانگ لگاتے ہیں جسے ’خوشی کی چھلانگ‘ کہا جاتا ہے۔