میسحی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال دسمبر کی 25 تاریخ کو کرسمس کا تہوار مناتے ہیں۔ اس موقع پر بہت سی جگہوں پر برقی قمقموں اور مختلف سجاوٹی اشیا سے مزین درخت 'کرسمس ٹری' بھی سب نے ہی دیکھے ہوں گے۔
پاکستان میں زیادہ تر کرسمس ٹری مصنوعی ہوتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مسیحی مذہب میں اس درخت کی اہمیت کیا ہے اور کیا اس کا تعلق کسی مذہبی عقیدے سے ہے؟
آگسٹن جیکب پشاور میں پیدا ہوئے اور گذشتہ کئی سالوں سے یہیں رہائش پذیر ہیں۔ وہ مسیحی کمیونٹی کے سماجی کارکن ہیں اور ان کے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرسمس ٹری ایک روایت ہے اور ہر سال کرسمس کے موقع پر اس درخت کو سجایا جاتا ہے اور لوگ تقریباً ایک ہفتہ پہلے ہی اس کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔
انہوں نے اس ٹری کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 'مشہور روایت یہ ہے کہ صدیوں پہلے جرمنی میں بونیفیس نامی ایک راہب انگلیںڈ سے روانہ ہو کر جرمنی چلے گئے، جہاں وہ ایک جنگل سے گزر رہے تھے کہ انہیں کچھ قبائلی لوگ نظر آئے جو ایک مذہبی رسم ادا کر رہے تھے۔'
'راہب نے دیکھا کہ یہ قبائلی ہر مرتبہ ایک بچے کو ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون قریب ایک پرانے درخت میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس عمل سے ان کی زندگیوں میں برکت آجائے گی۔'
جیکب نے بتایا کہ 'جب راہب نے یہ دیکھا تو انہوں نے قبائلیوں کو یہ کہہ کر منع کردیا کہ 2000 سال پہلے مسیحی مذہب کے عقیدے کے مطابق پیغمبر عیسیٰ، جنہیں مسیحی عیسیٰ المسیح کہتے ہیں، اس دنیا میں آئے تھے اور انہوں نے بہت قربانی دی تھی۔'
بقول جیکب: 'وہ قبائلی اس وقت تو مان گئے لیکن اگلے دن دوبارہ وہی رسم ادا کرنے لگے، جس پر راہب نے ان لوگوں کو بتایا کہ اس رسم کو ختم کرنے کے لیے اس درخت کو کاٹنا ہوگا، جب درخت کاٹا گیا تو اس کے تنے کے نیچے سے ایک چھوٹی سی ٹہنی نمودار ہوگئی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صنوبر کا پودا تھا۔'
'راہب نے ان قبائلیوں کو بتایا کہ یہ ٹہنی ایک نئی امید اور خوشی کی نشانی ہے کیونکہ آپ لوگوں نے بری رسم ترک کردی ہے اور تب سے تاریخ میں یہی لکھا گیا ہے کہ کرسمس کے موقع پر صنوبر کے درخت کو سجایا جاتا ہے۔'
جیکب نے بتایا: 'اس درخت کی سجاوٹ کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ نیا سال شروع ہونے والا ہے اور لوگ اس سے نئی امیدیں او خوشیاں وابستہ کرتے ہیں جبکہ اس درخت میں روشنیوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگلے سال میں لوگوں کی زندگیوں میں خوشیاں آجائیں۔'
حقیقی کرسمس ٹری پاکستان میں کہاں ملتے ہیں؟
کرسمس ٹری کے لیے استعمال ہونے والا مصنوعی درخت پائن یا صنوبر کا ہوتا ہے، جس کے پتے چھوٹے چھوٹے اور تنا لمبا ہوتا ہے۔ جیکب نے بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر مصنوعی درخت ہی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، تاہم حقیقی درخت پاکستان کے سرد علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں، خود بخود اگتے ہیں۔
جیکب کے مطابق: 'کرسمس شروع ہونے سے پہلے بعض لوگ یہ ٹری لاہور اور کراچی سے منگواتے ہیں جبکہ زیادہ تر چرچ میں بھی کرمس کے موقع پر یہ لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔'
کرمس ٹری کی تاریخ کے بارے میں دیگر مختلف رویات بھی موجود ہیں۔ وائی کرسمس ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کے مطابق اس ٹری کو کرسمس کے موقع پر سجانے کا رواج 14 ویں یا 15 ویں صدی میں جرمنی میں شروع ہوا تھا۔
ویب سائٹ کے مطابق جرمنی کے ایک شہر ریگا میں اب بھی ایک درخت موجود ہے جس پر درج ہے کہ یہ درخت 1521 میں یہاں کرسمس منانے کے لیے لایا گیا تھا جبکہ اس پر آٹھ زبانوں میں یہ لکھائی موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح ویب سائٹ کے مطابق اُس وقت اس درخٹ کو سیب، اخروٹ، کجھور اور کاغذی پھولوں سے سجایا جاتا تھا جبکہ اس درخت کے ارد گرد مرد و خواتین رقص کرتے نظر آتے تھے اور یہ ساری نمائش کھلی فضا میں کی جاتی ہے۔
گھروں کے اندر کرسمس ٹری کو لانے کے حوالے سے تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ جرمنی کے مارٹن لوتھر نے 16ویں صدی میں یہ روایت ڈالی تھی۔ ان کو یہ خیال اس وقت آیا جب ایک مرتبہ کسی جنگل سے گزرتے ہوئے انہوں نے درخت کی ٹہنیوں کے بیچ ستارے دیکھ لیے۔ یہ نظارہ ان کو بہت پسند آیا اور وہ درخت کو گھر لے کر گئے تاکہ اس کو اسی طرح سجایا جائے۔
روایات کے مطابق گھر آکر مارٹن نے سب کو بتایا: 'یہ نظارہ مجھے اچھا لگا اور اس سے مجھے پیغمبر عیسیٰ یاد آگئے جو ستاروں سے بھرے ہوئے آسمان کو چھوڑ کر کرسمس کے موقع زمین پر آ جاتے ہیں۔'
کرسمس ٹری کے بارے میں ایک تیسری روایت بھی موجود ہے۔ فرسٹ کرسمس ٹری نامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی کے ایک جنگل میں فاریسٹر اپنے خاندان کے ساتھ کاٹیج میں موجود تھے۔ چونکہ سردی تھی، لہذا انہوں نے خود کو گرم رکھنے کے لیے آگ لگا رکھی تھی۔
اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ جب فاریسٹر نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک غریب بچہ اکیلا کھڑا سردی سے کانپ رہا تھا۔ان کے گھر والوں نے بچے کو کھانا کھلایا اور اسے سونے کے لیے جگہ بھی دی۔
ویب سائٹ کے مطابق اگلے روز کرسمس کی صبح تھی تو گھر والوں نے دیکھا کہ وہی چھوٹا بچہ پیغمبر عیسیٰ کے روپ میں موجود ہے، وہ پھر کاٹیج کے سامنے والے باغ میں چلے گئے جہاں سے انہوں نے پائن درخت سے ایک شاخ کاٹی اور اس کو بطور تحفہ خاندان والوں کو پیش کردیا۔
تب سے اب تک لوگ اسی درخت کو کرسمس کے موقع پر گھروں میں لاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ سمیت وہ ممالک جہاں مسیحی مذہب کے پیروکار زیادہ تعداد میں موجود ہیں، وہاں حقیقی کرسمس ٹری ایک خاص جگہ پر موجود ہوتا ہے، جہاں لوگ جا کر کرسمس کی خوشیاں ایک ساتھ مناتے ہیں۔
برطانیہ میں 18 ویں صدی میں کنگ جارج تھری کی جرمن بیوی کوئن چارلوٹ ونڈسر محل میں کرمس ٹری لائی تھیں، جسے ہر سال کرسمس کے موقع پر سجایا جاتا ہے۔
کرسمس ٹری کی روشنیوں سے سجاوٹ کا رواج کب شروع ہوا؟
اس حوالے سے مختلف دعوے موجود ہیں، تاہم فرسٹ کرسمس ٹری نامی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ' 1880 میں تھامس ایڈیسن نے اپنے دفتر کے گرد کچھ لائٹیں لگائیں، جبکہ ان کے دوست نے 1882 میں نیویارک میں اپنے گھر کے اندر کرسمس درخت کے اوپر 80 سرخ، سفید اور نیلے چھوٹے چھوٹے بلب لگائے تھے، جس کے بعد سے اس درخت پر روشنیوں کی سجاوٹ کا رواج عام ہوگیا۔
اس کے بعد تھامس ایڈیسن نے 1890 میں کرسمس ٹری کو روشنیوں سے سجانے کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا جبکہ 19ویں صدی کے بعد اسی کمپنی نے اس درخت کی سجاوٹ کے لیے لائٹیں کرائے پر دینے کا اعلان بھی کیا۔