نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حکومتی مذاکرات انہی پرانی حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ہیں جو ملک کو آج بحران تک لے آئی ہیں۔
محسن داوڑ نے کوئٹہ کے دورے کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی بیٹھک میں کہا: ’پورے پشتون بیلٹ کو طالبان کے حوالے کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مذاکرات کی آڑ میں وزیرستان اور پورے قبائلی خطے کو طالبان کے حوالے کیا جا رہا ہے‘ اور ’اس کے نتائج اس بار اتنے بھیانک ہوں گے کہ ریاست انہیں سہہ نہیں پائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو عوامل ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں، ہم انہیں پھر سے دہرا رہے ہیں یعنی جو کچھ بھی افغانستان میں ہوا یا ٹی ٹی پی کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے یہ ماضی کی پالیسوں کا تسلسل ہے اور یہی پالیسیاں ہمیں موجودہ معاشی اور دیگر بحران تک لے کر آئی ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ جب وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ساتھ تھے تو اس وقت بھی عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ تھے اور بعد ازاں طویل مدتی سیاست کے لیے انہوں نے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
ان کا کہنا تھا: ’کوئی بھی تحریک چند نکات پر ایک مخصوص عرصے کے لیے ہوتی ہے اور اگر کسی نے طویل مدت کے لیے سیاست کرنی ہو تو وہ کسی سیاسی جماعت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب پشتون تحفظ موومنٹ بن رہی تھی، وہ اس وقت بھی ایک سیاسی جماعت کے کارکن تھے اور عوامی نیشنل پارٹی کے یوتھ ونگ کے مرکزی چیئرمین تھے۔
محسن داوڑ کہتے ہیں: ’میرا اپنا اندازہ، رائے اور سوچ ہے کہ اگر کسی نے طویل مدت کے لیے سیاست کرنی ہو تو اس کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کا ہونا ضروری ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ تحریک تھی اور سیاسی جماعت نہیں تھی۔ اس لیے ہم نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔‘
پی ٹی ایم کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’وہ (پی ٹی ایم کے رہنما) کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سیاسی جماعت بنائیں گے یا یہی چلے گی یہ تو وہ خود بتا سکتے ہیں۔‘
موجودہ سیاسی صورت حال خصوصاً نئی حکومت اور وزیراعظم کی تبدیلی سے متعلق سوال پر محسن داوڑ نے کہا: ’پچھلی حکومت یعنی عمران خان کے دورمیں جو سویلین تھے، انہوں نے سرنڈر کیا تھا۔ اس دور میں جتنی انسانی حقوق کی پامالی ہم نے دیکھی، اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی جرم تھا۔ لہذا اب سویلینز کی جگہ دوبارہ حاصل کرنا اور انسانی حقوق کی پامالی جس سطح تک پہنچ گئی تھی، اس کو نیچے لاکر ٹھیک کرنا آسان کام نہیں ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’بحرحال جو بھی فورم ہوتا ہے، ہم اپنا مدعا سامنے رکھتے ہیں۔ ہماری یہ بات ہوتی ہے کہ فرق محسوس ہونا چاہیے۔ عوام کو ریلیف ملنا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانیے کے حوالے سے جب ان سے سوال کیا گیا تو محسن داوڑ نے کہا: ’ان کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ جب تک وہ اقتدار میں رہے تو انہوں نے ہر اس فرد، صحافی، جج، جس نے بھی قانون کی پاسداری اور آئین کی بات کی، کو عتاب بنایا۔‘
انہوں نے کہا: ’چاہے وہ قاضی فائز عیسیٰ ہوں، ہمارے صحافی ہوں یا ہمارے سیاست دان، انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ اب جب اقتدار، جو ان کو دیا گیا تھا، نہیں رہا تو وہ پھر سے انقلابی بننے کی کوشش کررہے ہیں۔‘
محسن کہتے ہیں: ’میرے خیال میں یہ دوغلا پن ہے اور عوام کو زیادہ دیر تک دھوکہ نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ آج کل سب ریکارڈ پر ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ کے پرانے بیانات اور جو بھی ایکشن ہوتے ہیں۔ وہ سب ریکارڈ پر آ جاتے ہیں۔‘
علی وزیر کی رہائی کے لیے جدوجہد
رکن قومی اسمبلی علی وزیرجو اس وقت قید ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے وہ عملی مظاہرہ نہ ہوسکا، جو ہونا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کی رہائی کے لیے منظم جدوجہد نہ ہوسکی۔
محسن نے کہا: ’علی وزیر کا کیس اس پورے نظام کی تشریح کرتا ہے کہ اس ملک میں عدلیہ، انسانی حقوق اور پارلیمان کی کیا صورت حال ہے۔ اس کے لیے ایک منظم سیاسی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’انفرادی طورپر ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا، لیکن جس لیول کا پریشر بڑھانا ضروری تھا۔ وہ ایک منظم طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔‘
سری لنکا والی صورت حال
محسن داوڑ نے کہا کہ جو بھی عوامل ہیں، وہ ہمیں اسی نہج پر لے آئے ہیں۔ ہم انہی کو دوبارہ دہرا رہے ہیں۔ جو افغانستان میں ہوا، ابھی جو مذاکرات کے نام پر ہو رہا ہے۔ یہ ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ یہ ہمیں معاشی طور پر اس صورت حال پر لے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم سدھرنے اور اصلاح کی بجائے پھر اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور کرنی بھی چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ وقت سے پہلے انتخابات ہوں اور ہم کوئی انتظامی اصلاحات نہ کریں یا کوئی بھی حکومت ہو، موجودہ یا نئی، اس کا ارادہ نہ ہو، تو حالات نہیں سدھریں گے۔‘