پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے چند دیگر رہنماؤں نے باقاعدہ طور پر سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی ایم کے اتوار کو ہونے والے اجلاس میں محسن داوڑ سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، سینیئر قانون دان اور اے این پی کے سابق مرکزی رہنما لطیف آفریدی ایڈوکیٹ جو اس وقت سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر بھی ہیں، بشرا گوہر اور عوامی نیشنل پارٹی کی جمیلہ گیلانی شریک تھیں، اس اجلاس فیصلہ کیا گیا کہ محسن داوڑ اور افراسیاب خٹک سمیت پی ٹی ایم میں پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ اس پارٹی میں شامل ہوں گے۔
اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گے اور یوں پی ٹی ایم اور نئی بننے والی سیاسی پارٹی کی راہیں جدا ہوں گی۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے کچھ رہنماؤں نے جب سے پی ٹی ایم بنی ہے، میں منظور پشتین کو سیاسی پارٹی بنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔
ذرائع نے کے مطابق اس سیاسی پارٹی میں افراسیاب خٹک، بشرا گوہر اور جمیلہ گیلانی مرکزی رہنماؤں میں شامل ہوں گے جبکہ پارٹی کی سربراہی محسن داوڑ کریں گے۔
تاہم ذرائع کے مطابق ابھی تک سیاسی پارٹی کے اعلان کی تاریخ اور آئندہ کا لائحہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی منشور اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہو گا تو اس جماعت کا اعلان کیا جائے گا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس سیاسی پارٹی کی پی ٹی ایم کو ایسے ہی حمایت حاصل ہوگی جس طرح دیگر قوم پرست جماعتوں کی سپورٹ ان کو حاصل ہے اور ان کے مطالبات کی بھی حمایت کی جائِے گی۔ تاہم اس سیاسی جماعت میں شامل پی ٹی ایم کے رہنما تنظیم سازی کا حصہ نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر جو اس وقت جیل میں ہیں، وہ بھی اس سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گے، تاہم اس کے علاوہ پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنما جن میں ثنا اعجاز، سید عالم محسود بھی شامل ہیں، پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گے اور پی ٹی ایم ہی میں رہیں گے۔
جب ذرائع سے پوچھا گیا کہ کیا کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہنماؤں کا اس جماعت میں شامل ہونے کا امکان ہے، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ابھی تک اتنا فیصلہ ہوا ہے کہ سیاسی جماعت کا اعلان کیا جائے اور اس کے بعد محسن داوڑ نئی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔
پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما جو اس سیاسی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب سے پی ٹی ایم بنی ہے محسن داوڑ سیاسی پارٹی بنانے کے حق میں تھے تاہم علی وزیر اور منظور مشتین سیاسی جماعت بنانے کی مخالفت کرتے تھے اور پی ٹی ایم کو ایک مذاہمتی تحریک ہی رکھنے پر خوش تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ جب محسن داوڑ کی کوششوں کے بعد بھی منظور پشتین نہیں مانے تو انہوں نے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا جس میں عوامی نیشنل پارٹی سے نکالے جانے والے رہنما افراسیاب خٹک اور بشرا گوہر اس سارے معاملے میں محسن داوڑ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
سیاسی پارٹی بنانے کی مخالفت کرنے والے پی ٹی ایم کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ چونکہ ’محسن داوڑ شروع دن سے پی ٹی ایم میں ایک معروف رہنما رہے ہیں اور انہوں نے دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنا دیے تھے، جس سے منظور پشتین کو خوف تھا کہ اس وہ پی ٹی ایم کو ہائجیک کریں گے کیونکہ منظور پشتین پی ٹی ایم کی سربراہی کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے تھے۔‘
’پی ٹی ایم میں سیاست کے شوقین لوگ اس سیاسی پارٹی کا حصہ ہوں گے جبکہ مںظور سمیت پی ٹی ایم کے بہت سے مرکزی رہنما منظور پشتین کے ساتھ ہی رہیں گے اور تحریک کو جاری رکھیں گے۔‘
سیاسی پارٹی بنانے کے فیصلے کے حوالے سے جب محسن داوڑ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سیاسی مسائل اور اس کے حل کے لیے سیاسی لوگ اکھٹے بیٹھتے ہیں اور مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں اور آج کا اجلاس بھی اس حوالے سے تھا اور ایسی بیٹھک گذشتہ کئی عرصے سے کرتے آ رہے ہیں۔
محسن نے بتایا کہ ’ہم سیاست کرتے ہیں اور اس خطے کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور جمہوری جدو جہد پر یقین رکھتے ہیں۔‘
منظور پشتین کا غیر پارلیمانی تحریک کی حمایت
ماضی میں منظور پشتین بارہا مختلف مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم ایک غیر پارلیمانی تحریک رہے گی اور سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ، علی وزیر، عبداللہ ننگیال جب عام انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو منظور پشتین نے واضح الفاظ میں کہا تھا اگر پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا اور پی ٹی ایم سیاست میں حصہ لینے والوں کی نہ تو حمایت کرے گی اور نہ ہی مخالفت۔
اس کے بعد چند ماہ قبل پی ٹی ایم کے لیے آئین کا ایک ڈرافٹ بنایا گیا تھا اور اس ڈرافٹ پر ابھی تک پی ٹی ایم کے رہنما متفق نہیں ہوں سکے ہیں کیونکہ اس ڈرافٹ میں بھی اسی حوالے سے ایک نکتہ موجود تھا کہ کیا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا پی ٹی ایم کی تنظیم سازی اور فیصلہ سازی میں حصہ لے سکے گا۔
ڈرافٹ میں ایک دوسرا نکتہ جس پر رہنما متفق نہیں تھے وہ یہ تھا کہ پی ٹی ایم پارلیمانی یا غیر پارلیمانی تحریک رہے گی۔