پاکستان ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو چکا ہے۔ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان بدقسمتی کے باعث سیمی فائنل میں پہنچنے سے رہ گیا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں نقائص نہیں ہیں۔
اس سے پہلے کہ آج کے نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے اہم سیمی فائنل کو زیر بحث لاؤں، میں مختصراً پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے میں ناکامی کا باعث بننے والی وجوہات کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک کمبینیشن کے طور پر نہیں کھیلا یعنی ہر میچ میں حریفوں کو دیکھ کر صحیح 11 کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ حارث سہیل اور شاہین آفریدی کو تمام میچ کھیلنا چاہیے تھے لیکن ان کو تمام میچز نہ کھلائے گئے۔
اسی طرح چوتھی پوزیشن پر محمد حفیظ کی بجائے حارث سہیل کو بیٹنگ کرنا چاہیے تھی۔ محمد حفیظ کھیلتے ہوئے اب بھی بہت اچھے لگتے ہیں مگران کا ٹمپرامنٹ ایسا نہیں کہ جو اس اہم پوزیشن پر بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کا ہوتا ہے۔ اسی لیے محمد حفیظ ٹیم میں نہ ہوں تو سرفراز خود پانچویں پوزیشن پر بیٹنگ کر سکتے ہیں اور چوتھی پوزیشن پر ہر صورت حارث سہیل کو کھیلایا جانا چاہیے۔
فخر زمان کو لیگز کھیلنے کی بجائے ڈومیسٹک میں لمبے میچ کھلینا چاہیے۔ میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ انہیں ٹی 20 کھیلنے کی اجازت نہ دے اور انہیں ڈومیسٹک کھیلنےکے لیے کہا جائے تاکہ وہ اپنی خامیوں پر قابو پا سکیں۔
حسن علی کو اپنی بولنگ اور مزاج پر کنٹرول کے لیے طویل عرصہ کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ خود کو ریلیکس کریں اور چہرے پر کچھ مسکراہٹ لائیں تاکہ ان کے تنے ہوئے اعصاب نرم پڑیں اور وہ دوبارہ ویسی ہی کارکردگی دکھا سکیں جو انھوں نے چیمپیئنز ٹرافی میں دکھائی تھی۔ سرفراز کو زیادہ بااختیار کرنے کی ضرورت ہے اور انضمام الحق جیسے کردار جو کپتان کے اختیارات ’سلب‘ کرتے ہیں کو نکالا جانا چاہیے۔
کپتان کو اپنی ٹیم کا ’باس‘ ہونا چاہیے۔ بالکل ویسے جس طرح عمران خان بطور کپتان میدان اور شاید میدان کے باہر بھی اپنی ٹیم کے باس ہوا کرتے تھے۔ صرف پی سی بی کے چیئرمین کو کپتان کے اوپر ہونا چاہیے اور یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر پاکستانی ٹیم آگے بڑھ سکتی ہے۔ اگر ہم بھارت یا انگلینڈ کی طرف دیکھیں تو ان کی ٹیموں میں ویرات کوہلی اور مورگن ہی باس ہیں۔ اس لیے سرفراز کو بااختیار کرنا چاہیے اور انہیں بھی خود کو مضبوط ثابت کرنا چاہیے۔
اب بات کرتے ہیں خود اعتمادی سے بھرپور بھارت اور خوش نصیب نیوزی لینڈ کے درمیان آج کھیلے جانے والے اہم ترین سیمی فائنل کی۔
نیوزی لینڈ مضبوط ترین اور تجربہ کار بھارتی ٹیم کو ہرا کر اپ سیٹ کرسکتی ہے؟
کیویز کے پاس لوکی فرگوسن جیسا ہتھیار ہے جن کی رفتار ایکسپریس ہے اور جب وہ شارٹ گیند کرتے ہیں یا یارکر مارتے ہیں تو ان کا جیف تھامسن کی طرح خوف محسوس کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لوکی فرگوسن کو بھارتی بلے بازوں کے خلاف مؤثر طور پر استعمال کرنا ہوگا تاہم لوکی فرگوسن کو اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بولنگ کرنا ہو گی کیونکہ بھارتی بلے باز دنیا میں سب سے ٹاپ پر ہیں۔
بھارت کے پاس میچ جیتوانے کی صلاحیت رکھنے والے چار خطرناک بلے باز روہت شرما، وراٹ کوہلی، کے ایل راہل اور ریشب پنت موجود ہیں۔ ان میں سے بھی روہت شرما اور وراٹ کوہلی زیادہ اہم ہیں۔
کیویز کے پاس بہترین پیس اٹیک ہے، اگر وہ پہلے 15 اوورز میں کسی طریقے سے بھارت کے ٹاپ بلے بازوں کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میچ نیوزی لینڈ کے کنٹرول میں آ سکتا ہے۔
میٹ ہینری، ٹرینٹ بولٹ اور لوکی فرگوسن بہترین تیز بولر ہیں۔ بولٹ نہایت تجربہ کار بولر ہیں اور انہوں نے پورے ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ وہ اچھی فارم میں ہیں اور وہ ابتدائی وکٹیں حاصل کرنے میں اپنے تیز بولروں کی قیادت کر سکتے ہیں۔
لیکن اگر روہت شرما اور وراٹ کوہلی کی طرف سے کوئی چانس ملتا ہے تو اسے پکڑنا نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ چانسز ضائع کر دیے گئے تو یہ دونوں چوٹی کے بلے باز انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مخالفین کو دوسرا چانس نہیں دیتے۔
ٹاس کا فیکٹر بھی بہت اہم ہو گا۔ میری رائے میں ٹاس جیتنے والے کو فوری طور پر پہلے بیٹنگ کرنا چاہیے اور مخالف کے لیے ایک بڑا ہدف مقرر کرے۔
اگر کیویز ٹاس جیت جاتے ہیں تو انہیں بھارت کو چیلنج کرنے کے لیے کم ازکم 300 رنز کا ٹوٹل بنانا چاہیے۔ ان کے اہم بلے باز کین ولیمسن اور راس ٹیلر ہیں۔
انہیں آج بڑی اننگز کھیلنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے لگتا ہے کہ ان کے اوپنروں کو بھی ورلڈ کپ میں ان کی اب تک کی کارکردگی سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ شاید انہیں گپٹل کو باہر بٹھا کر کولن منرو اور ہینری نکولس کو سامنے لانا چاہیے۔
نچلی پوزیشنز پر بیٹنگ کرنے والوں میں نیوزی لینڈ کے پاس جمی نیشم، ٹام لیتھم اور کولن ڈی گرینڈوم جیسے اچھے کھلاڑی موجود ہیں۔ اگر ان بلے بازوں کی جارحانہ کھیلنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا ہے تو پہلے چار بلے بازوں کو بڑی اننگز کھیلنا ہوں گی۔
اگر بھارت ٹاس جیت جاتا ہے تو کیویز کو چاہیے کہ انہیں 275 سے نیچے آؤٹ کریں۔ ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب کیوی بولرز وقفے وقفے سے وکٹیں حاصل کرتے رہیں۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے نیوزی لینڈ کو جارحانہ بولنگ اور بہترین فیلڈنگ کرنا ہوگی اور اس طرح بھارتی بلے باز جم کر نہیں کھیل سکیں گے۔
بیٹنگ اور بولنگ سے ہٹ کر اعصاب کی جنگ کا نام کرکٹ ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس بڑے میچ میں کھلاڑی اپنے اعصاب پر قابو رکھیں۔ بھارت کے پاس سمندر کی طرح پر سکون رہنے والے ایم ایس دھونی موجود ہیں جو بھارتی ٹیم کے لیے قوت متحرکہ کے طور پر کام کریں گے۔
بھارتی ٹیم جب بھی مشکل میں پڑتی ہے تو وہ دھونی کی طرف ہی رجوع کرتی ہے۔ کیویز کے پاس ان کے کپتان ولیمسن ہیں جو اپنی پرسکون طبعیت کے باعث ڈریسنگ روم میں سبھی ساتھیوں کے اعصاب کو تناؤ سے بچائے رکھیں گے۔
دونوں ٹیموں کے پاس اچھے بولرز ہیں۔ بھارت کے پاس جسپریت بمرا ہیں جو ملنگا کے شاگرد ہیں اور انہوں نے پورے ورلڈ کپ میں تباہ کن یارکر اور فل لینتھ باؤلنگ کی۔
آج کرکٹ کا دلچسپ مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ اس گیم میں حکمت عملی کا کردار بہت اہم ہو گا۔
میرے خیال میں اگر کیوی بلے باز اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کھیلے تو ان کی بولنگ میں یہ قابلیت ہے کہ وہ بھارتی بلے بازوں کو روک سکتے ہیں۔
ان کے بلے بازوں کو بھارتی بولروں کے سامنے جم کر کھیلنا ہو گا اور گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ بھارت جڈیجا کو کھیلاتا ہے یا نہیں یا بھارت اپنے اصل سپنروں کی جوڑی ’چکو‘ یعنی چہل اور کلدیپ کو ہی کھیلاتا ہے۔
یہاں پچ فلیٹ ہے اور اگر بلے بازوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا تو بڑا سکور ہونے کی توقع ہے اور یاد رہے کہ بڑے میچ میں چیز کرنا بالکل آسان نہ ہو گا۔