بلوچستان میں مون سون کی تباہ کاریاں جاری ہیں جہاں نینشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعدادوشمار کے مطابق 14 جون سے اب تک 104 شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی اضلاع میں سیلابی صورت حال ہے۔
مشیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے منگل کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مون سون بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو روک نہیں سکتے مگر اقدامات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضلع لسبیلہ میں اب تک 50 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے، جبکہ تربت میں 50 ہزار خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
ضیا لانگو نے کہا کہ حکومت ہر آفت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور بارشوں اور سیلاب سے ہلاک ہونے والے افراد کو 10، 10 دس لاکھ روپے فراہم کر دیے ہیں۔
لسبیلہ میں بارشوں اور سیلابی ریلوں سے تباہی ہوئی ہے اور کوئٹہ کراچی شاہراہ کئی مقامات پر بہہ جانے سے کئی لوگ پھنس گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک شاہراہ پر گاڑیوں کی قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ دوسری جانب پھنسے مسافر خوراک اور پانی کی وجہ سے پریشان ہیں، جن کا کہنا تھا کہ پل ٹوٹ چکے ہیں اور حکومت غائب ہے۔
ویڈیو میں ایک دوسرا مسافر کہہ رہا ہے کہ ہم پریشان بیٹھے ہیں۔ کھانے پینے کے حوالے سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ کوئی راستہ نہیں۔ ہم کہاں جائیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجید ہوٹل لسبیلہ کے قریب 26 سے زائد لوگ پھنسے ہیں۔ لاکھڑا میں تین سو سے زائد، چمن ہوٹل لسبیلہ بازار میں 50 سے زائد اور مین آر سی ڈی شاہراہ پر سکن ہائی لسبیلہ میں 25 سے زائد لوگ سیلابی پانی میں پھنسے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ معلومات مقامی لوگوں کی طرف سے فراہم کی گئی کالوں سے جمع کی گئی ہیں۔ رضاکاروں کو ان افراد کو نکالنے کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر حکومت بلوچستان کا ہیلی کاپٹر بارش سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے لیے بدھ کو روانہ کردیا جائے گا۔
محکمہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ہیلی کاپڑ کے ذریعے دور دراز علاقوں تک امدادی سامان پہنچایا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع پنجگور میں بھی بارشوں اور سیلاب ریلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
مقامی صحافی قادر بخش نے بتایا کہ ایک شخص سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے۔ سب تحصیل کلگ کے درجنوں دیہات بند ٹوٹنے کے باعث زیر آب آگئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سب تحصیل کلگ کے علاقے سے پھلین عبدالقدوس نامی شخص نے فون پر بتایا کہ گدرزا بند ٹوٹنے سے سب تحصیل کلگ کے متعدد دیہات کا وسیع علاقہ زیر آب آچکا ہے اور علاقہ مکینوں نے جان بچا کر محفوظ مقامات پر پناہ لی ہوئی ہے۔
عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ صورت حال خراب ہے۔ تمام لوگ بے یارومدگار بیٹھے ہیں۔ پانی پورے علاقے میں پھیل چکا ہے۔
قادر بخش نے بتایا کہ گوارگو میں سیلابی ریلے سے سی پیک روڑ کا پل بہہ گیا ہے، جس کے باعث پنجگور کا زمینی رابطہ کیچ سے کٹ گیا۔
سیلابی ریلوں میں لوگوں کے مال ومویشی بھی بڑی تعداد میں بہہ گئے ہیں۔ ریسکو ٹیموں نے گوارگو میں سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے محمد آدم کی لاش کو نکال لیا۔
ضلع آواران میں بھی سیلابی ریلوں سے مختلف علاقوں میں مکانات اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے، جس سے مکینوں کو بہت نقصان کا سامنا ہے۔
علاقے کے ایک مکین علی بزنجو نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ نقصانات بہت ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے بہت کچھ بہہا کر لے گئے ہیں۔ تاہم علاقے میں نیٹ ورک نہ کام کرنے کے باعث اصل صورت حال سامنے نہیں آئی۔
ادھر ضلع لسبیلہ کے سابق نائب ناظم ابراہیم دودا سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وندر کے علاقے میں سیلابی ریلوں نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے اور کئی لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے کے عوام کو کپاس کی فصل تباہ ہونے کے نقصان کا بھی سامنا ہے۔
اس وقت صورت حال کے بارے میں معلومات کے حوالے سے موبائل اور پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک بھی خراب ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔
این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضلع لسبیلہ میں اوتھل اور حب میں قومی شاہراہ متاثر ہونے کے باعث تین سے پانچ سو کے قریب لوگ پھنس چکے ہیں۔
ضلع جھل مگسی کے علاقے گنداواہ میں اربن فلڈنگ ہوئی ہے جس کے باعث گوٹھ خدابخش، گوٹھ شربت خان لاشاری اور آس پاس کے علاقوں میں پانی آچکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 14 جون سے 26 جولائی تک بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر ملک بھر میں 337 افراد ہلاک اور 370 زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں 104 ہوچکی ہیں۔
بلوچستان میں اب تک 580 کلومیٹر سڑکیں، گیارہ پل اور 2953 گھر مکمل اور جزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں، اور 712 جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔