بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے زیارت واقعے کے حوالے سے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا ہے۔
اس کمیشن کی سربراہی جسٹس اعجاز سواتی کریں گے، جو انکوائری کر کے 30 دن بعد اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اس سے قبل بلوچستان حکومت نے ضلع زیارت میں رواں ماہ کے دوران ایک آپریشن میں نو افراد کے مارے جانے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے رجسٹرار بلوچستان ہائی کورٹ کو مراسلہ بھیجا تھا۔
زیارت میں آپریشن کے خلاف کوئٹہ کے گورنر ہاؤس سے متصل ریڈ زون کے قریب لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزاور لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ چھ دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
محکمہ اطلاعات بلوچستان کی طرف سے جاری خبر میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی منظوری سے محکمہ داخلہ نے رجسٹراربلوچستان ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے مراسلہ لکھ دیا ہے۔
جولائی کی 13 اور 14 تاریخ کے درمیان رات کو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک افسر لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ اور ان کے کزن عمر جاوید کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا اور بعد ازاں قتل کے بعد سکیورٹی فورسز نے زیارت میں آپریشن کرکے نو افراد کو مارنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ ہلاک شدگان کی لاشیں 17 جولائی کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں منتقل کی گئی تھیں۔
محکمہ تعلقات عامہ فوج کی طرف سے جاری شدہ بیان کے مطابق ’سکیورٹی فورسز نے ایس ایس جی دستوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سوچا سمجھا سرچ آپریشن شروع کیا۔ نتیجتاً 13 اور 14 جولائی کی درمیانی رات کو چھ سے آٹھ دہشت گردوں کے ایک گروپ کو سیکورٹی فورسز کی ایک ٹیم نے قریبی پہاڑوں میں ایک نالے میں جاتے ہوئے دیکھا۔ ممکنہ گھیرے کا احساس ہونے پر دہشت گردوں نے لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا شہید کو گولی مار دی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد مارے گئے جبکہ ان کے قبضے سے آئی ای ڈیز، دھماکہ خیز مواد اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔‘
اس آپریشن کے بعد جب لاشیں کوئٹہ سول ہسپتال کے سرد خانے منتقل کی گئیں تو ان میں سے پانچ افراد کی شناخت کے بارےمیں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ پہلے سے لاپتہ تھے جن کے کوائف ان کے پاس درج ہیں۔
محکمہ اطلاعات بلوچستان کے مطابق جوڈیشل کمیشن بلوچستان ٹربیونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کے تحت قائم کیا جائےگا۔
مراسلے کے مطابق جوڈیشل کمیشن بلوچستان ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ہوگا جس کی نامزدگی چیف جسٹس ہائی کورٹ کریں گے۔ کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ زیارت آپریشن میں جو لوگ مارے گئے وہ پہلے سے لاپتہ تھے یا ان کےعلاوہ تھے۔
جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے میں شریک انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی کارکن ماہ رنگ نے بتایا کہ ہمیں بھی حکام نے اس حوالے سے بتایا کہ اس پر کام جاری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہ رنگ نے بتایا کہ دھرنے میں شامل تمام لوگوں کا یہی مطالبہ ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔
اس سے قبل مشیر داخلہ میر ضیا لانگو کا پریس کانفرنس میں موقف تھا کہ زیارت واقعے میں مارے جانے والے افراد ’دہشت گرد‘ تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ریاست پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ مسنگ پرسنز دراصل پہاڑوں میں ریاست کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جس کی تصدیق ان کے کارروائیوں سے ہوتی ہے۔ گوادر،کراچی سٹاک ایکچینج اور نوشکی، پنجگور میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی وہ لوگ ملوث تھے جن کے نام مسنگ پرسن لسٹ میں موجود تھے۔
جب لاپتہ افراد کے دھرنے اور ان کے مطالبات کے حوالےسے حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان سے ہمارے وزرا کے رابطے ہیں اور ایک مرتبہ مذکرات بھی ہوئے ہیں۔
فرح عظیم شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حساس ہے جس کے بہت سے پہلو ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے، حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
زیارت میں کرنل لئیق کے اغوا کے بعد سکیورٹی فورسز آپریشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’ریاست بغیر دیکھےکوئی کارروائی نہیں کرتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر کارروائی کی، جو اس واقعے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔‘ سوشل میڈیا پر چل رہا تھا کہ یہ فیک آپریشن ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔