وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شریک ہیں، تاہم ماہرین کے خیال میں مغرب نواز پالیسیوں کے باعث پاکستان اس فورم سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، نہ ہی اس کے اراکین ممالک کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نظر آتا ہے۔
اسلام آباد میں تھینک ٹینک سٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ (ایس وی آئی) سے منسلک تحقیق کار ظفر اقبال کے خیال میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی ایس سی او کے اجلاس میں شرکت سے زیادہ توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں كہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کا جھکاؤ واضح طور پر مغرب کی طرف ہے، جبکہ ایس سی او ان تمام ممالک پر مشتمل ہے جن کے مفادات مغرب سے دور ہو رہے ہیں۔
تاہم یونیورسٹی آف بلوچستان میں بین الاقوامی امور کے استاد دوست محمد بڑیچ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کی ایس سی او میں موجودگی کی وجہ سے اس کے لیے ’اچھے موقعوں‘ کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پاکستان ایس سی او میں شامل لینڈ لاکڈ وسطی ایشیائی ریاستوں کو سمندر تک راستہ مہیا کر کے علاقائی رابطوں کے سلسلے میں تنظیم کے اندر ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اسلام آباد شنگھائی تعاون تنظیم کو رکن ممالک کے ساتھ گہرے تاریخی اور ثقافتی روابط کو مزید بڑھانے کے لیے ایک اہم بین العلاقائی کثیر الجہتی فورم کے طور پر دیکھتا ہے، جوان تعلقات کو ایک مضبوط اقتصادی بنیاد فراہم کرتا ہے اور پاکستان کو ایک علاقائی تجارت اور ٹرانزٹ کوریڈور کے طور پر فروغ دیتا ہے۔
تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کے 29-28 جولائی کو ہونے والے دو روزہ اجلاس میں پاکستان کے علاوہ چین، بھارت، قازقستان، روس، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ اور وفود شرکت کر رہے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر وزرائے خارجہ کی الگ الگ ملاقاتیں بھی ہونا ہیں، جن میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی اپنے چینی اور روسی ہم منصبوں سے بیٹکھوں کو اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی ایس سی او کے دوسرے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستان میں موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد پہلی مرتبہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کسی اجلاس میں ایک چھت کے نیچے موجود ہوں گے، تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کو خارج از امکان قرار دیا جا رہا ہے۔
وزرائے خارجہ کونسل اجلاس کے شرکا اس سال ستمبر میں ازبکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تیاریوں پر گفتگو کے علاوہ ایس سی او میں مزید ملکوں کو شامل کرنے، مشترکہ دلچسپی کے علاقائی اور عالمی حالات اور خطے میں ممکنہ افراط زر اور کساد بازاری پر بحث کریں گے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں ایران کی رکنیت کی منظوری دی جائے گی، جبکہ بیلاروس نے بھی ایس سی او کی رکنیت حاصل کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے ستمبر کے سربراہی اجلاس میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ، مغربی ممالک کی جانب سے ماسکو پر لگائی گئی پابندیوں اور خطے میں جنگ کے تناظر میں سکیورٹی کے حالات زیر بحث آئیں گے۔
پاکستان کو ایس سی او سے کتنا فائدہ ہے؟
اکثر ماہرین کے خیال میں پاکستان کی ایس سی او میں موجودگی اسلام آباد یا تنظیم کے لیے کسی فائدے کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتی۔
وسط ایشیا میں سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے صحافی محمد شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مغرب نواز پالیسیوں نے اسلام آباد اور ایس سی او کو ایک دوسرے کے لیے غیر اہم بنا کر رکھ دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پاکستان کے لیے ایس سی او كے اجلاس محض نشستاً، گفتم اور برخاستم جیسی سرگرمی بن کر رہ گئے ہیں۔‘
ان کے خیال میں پاکستان 1951 والی غلطی دہرا رہا ہے اور دنیا میں طاقت کے مختلف مراکز کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی بجائے مغرب کی طرف جھکاؤ کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ روس مغرب کے ساتھ براہ راست لڑائی میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں چین بھی ماسکو کے زیادہ قریب نظر آ رہا ہے۔
’ایسے میں بلاول بھٹو زرداری ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اچھی تقریر سے زیادہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے، كیونكہ پاكستان كے پاس اس میٹنگ میں كہنے كو کچھ نہیں ہے۔‘
تھنک ٹینک سٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ کے ظفر اقبال نے اس سلسلے میں کہا کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور ایس سی او ممالک كے درمیان خلیج کو مزید وسیع کر دیا ہے بلکہ دنیا كو دو بلاکس میں تقسیم کر دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے مغرب کو طلاق دے کر ایس سی او یا کسی بھی دوسری مغرب مخالف طاقت کی طرف رجوع کرنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین اور روس جیسی مغرب مخالف طاقتیں بین الاقوامی نظام میں اپنی حیثیت کی وجہ سے ہر موڑ پر پاکستان کی مدد نہیں کر سکتیں۔ ’پاکستان کو معیشت سمیت کئی پیچیدہ چیلنجز درپیش ہیں جن کا احاطہ شنگھائی تعاون تنظیم یا غیر مغربی ریاستوں کے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے پاکستان کو اسی نظام میں رہنا پڑے گا۔‘
انہوں نے وضاحت كرتے ہوئے كہا كہ ’حالیہ قومی سلامتی پالیسی میں پاکستان ریلیوینٹ (Relevent) رہنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے، جس سے مراد مغربی نظام میں منسلک رہنا ہے۔‘
تاہم ان کے خیال میں کچھ توازن لانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور اس سلسلے میں انہوں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ڈکٹیشن نہ لینے کا طریقہ اپنایا تھا۔
ظفر اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ مغرب اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔
’اس سلسلے میں ہمارے پاس ہمارے پڑوسی ملک کی مثال موجود ہے، جو ایسا ہی توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا فورم پاکستان کے لیے قابل ذکر ضرور ہے کیونکہ یہ ایک اہم علاقائی تنظیم ہے اور پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں بھی تیزی آئی ہے جو کہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک درد سر ہے۔
ظفر اقبال کے خیال میں عسکریت پسندی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے علاقائی نقطہ نظر پاکستان کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
ان خیالات کے برعکس یونیورسٹی آف بلوچستان کے دوست محمد وڑیچ کا کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ایس سی او میں پاکستان کے لیے کئی مواقعے موجود ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں رابطوں اور ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں کردار ادا کر کے ایس سی او میں اپنی اہمیت ثابت کر سکتا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کونسل کے جاری اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی طرح پاکستان کے ہمسایوں سے بہتر تعلقات کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے ایس سی او کا فورم استعمال کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے 16 جون کو آئی ایس ایس آئی میں خطاب میں واضح طور پر بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
’میرے خیال میں بلاول بھٹو زرداری اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں توجہ کا مرکز ہوں گے اور یہ دونوں ہمسایہ ممالک کے لیے ایک اچھا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔‘
دوست محمد وڑیچ، جو تھینک ٹینک اسلام آباد سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹیٹیوٹ (آئی ایس ایس آئی) سے بھی منسلک رہ چکے ہیں، نے کہا کہ پاکستان وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک کو گوادر بندرگاہ تک رسائی دے کر تین ارب لوگوں کو کنیکٹ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایس سی او کے فورم کو خطے میں تجارت، سیاحت، تعاون اور کئی دوسرے شعبوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی امور کے استاد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی حالیہ قومی سکیورٹی پالیسی میں جیو اکنامکس کو جیو پولیٹکس پر ترجیح دینے کا ذکر موجود ہے اور ایس سی او اس سلسلے میں اسلام آباد کے لیے ایک اہم فورم ثابت ہو سکتا ہے۔
سوسائٹی آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایک مقالے میں پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم میں رہنے کے ان فوائد کا ذکر کیا گیا تھا۔
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کو ان حقائق کی وجہ سے پاکستان کے لیے اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔
1- ایس سی او میں پاکستان تجارت اور مناسب سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی کے لیے بڑی علاقائی طاقتوں سے معاشی مدد حاصل کر سکتا ہے۔
2- ایس سی او ایک ابھرتا ہوا سکیورٹی بلاک ہونے کے ناطے روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
3- ایس سی او پاکستان کو اپنے علاقائی اور عالمی دشمنوں کے خلاف ایک اہم سٹریٹیجک پوزیشن فراہم کر رہا ہے۔
4- ایس سی او پاکستان کو علاقائی شراکت داروں کے انتخاب کے لحاظ سے بہتر اختیارات دے رہا ہے۔ یہ اسے روس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں کے قریب لا رہا ہے۔
5- ایس سی او کا پلیٹ فارم پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کی بنیاد پر تناو کم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
6- ایس سی او کے ذریعے پاکستان خطے میں اپنی سفارتی تنہائی ختم کر سکتا ہے۔
7- پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مدد طلب کر سکتا ہے اور اس طرح کے چیلنج کا سامنا کرنے والے دیگر رکن ممالک کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کر سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کیا ہے؟
یوریشین ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001 میں عمل میں آیا اور اس کے ابتدائی چھ اراکین میں قزاقستان، کرغستان، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے، جو بعد ازاں 2017 میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے آٹھ ہو گئے۔
ایس سی او کے رکن ممالک کی تین اقسام ہیں، جن میں آٹھ مستقل اراکین کے علاوہ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا کو آبزرورز کی حیثیت حاصل ہے، جبکہ آرمینیا، آذربائیجان، کمبوڈیا، نیپال، سری لنکا اور ترکی ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم مقاصد میں رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور اچھے پڑوسی تعلقات کو فروغ دینے کے علاوہ علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانا اور سیاسی میدان، تجارت، معیشت، ثقافت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، نقل و حمل اور رابطے، سیاحت اور ماحولیاتی تحفظ میں موثر تعاون کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنا شامل ہیں۔
کابل سے تعلق رکھنے والے افغان محقق احمد بلال خلیل کا کہنا تھا کہ ایس سی او بننے کی بنیادی وجہ افغانستان میں خانہ جنگی تھی۔
تاہم افغانستان ایس سی او کا فوکل پوائنٹ ہونے کے باوجود تنظیم گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران جنگ زدہ ملک سے متعلق مسائل اور تنازعات کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔
ایس سی او کو بین الاقوامی طور پر ایک ’گفتگو کا کلب‘ ہی گردانا جاتا ہے، جہاں مسائل پر صرف بات چیت کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ایس سی او میں شامل ممالک کے اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے بتائے جاتے ہیں۔
سٹریٹیجی کی پروفیسر ماریہ اومیلیچیوا لکھتی ہیں: ’افغانستان کی صورت حال کا کثیرالجہتی حل نکالنے کے لیے ایک ذریعہ ہونے کے باوجود، ایس سی او مختلف قومی مفادات اور اراکین کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے معذور ہے، تمام اراکین اپنی جغرافیائی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر بالآخر طالبان کو تسلیم کر لیں گے، اگر وہ اپنے ملک میں موجود تنازعات پر قابو پانے کا وعدہ پورا کرتے ہیں۔‘