یوریشین ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا دو روزہ سربراہی اجلاس آج تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں شروع ہو رہا ہے، جس کے ایجنڈے میں افغانستان کی صورت حال پر گفتگو بھی شامل ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کے لیے دوشنبے جائیں گے، جبکہ روسی صدر ولادی میر پوتن اور بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی ویرچول لنک کے ذریعے بیٹھک میں موجود ہوں گے۔
دوسری طرف ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے غیر ملکی سرکاری دورے پر دوشنبے میں ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
پاکستان کے حوالے سے ایس سی او سمٹ میں افغانستان کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن، جن کے سٹاف میں کچھ افراد کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، کے دوشنبے نہ آنے کے باعث وزیر اعظم عمران خان کی ان سے پہلے سے طے شدہ ملاقات نہیں ہو سکے گی۔
ایس سی او اجلاس کے ایجنڈے میں ایک اہم نقطہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد خطے کی بڑھتی ہوئی غیر یقینی سکیورٹی صورت حال پر بحث بھی شامل ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستوں اور خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے صحافی شیراز پراچہ کا کہنا تھا: ’اس سمٹ کا مقصد ہی افغانستان کی صورت حال پر گفتگو کرنا ہے، کیونکہ جنگ زدہ ملک میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد اس کے پڑوسی خصوصاً تاجکستان شدت پسندی کے ممکنہ سپل اوور کے پیش نظر پریشان ہیں۔‘
بعض ماہرین کے خیال میں ایس سی او اجلاس میں افغانستان میں حال ہی میں بننے والی عبوری حکومت اور اس کے اثرات پر بھی گفتگو ہو گی۔
چین کی نارتھ ویسٹ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر وانگ جِن اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں: ’عین ممکن ہے کہ ایس سی او میں اتفاق رائے کے ذریعے طالبان پر زیادہ جامع حکومت تشکیل دینے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے دباو ڈالا جائے۔‘
شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے عبوری حکومت میں افغانستان کی نسلی اقلیتوں کو شامل نہ کر کے وسطی ایشیائی پڑوسیوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ ’خصوصاً تاجکستان افغانستان کی اندرونی صورت حال سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاجکستان افغانستان کے ساتھ سرحدیں شئیر کرتا ہے، اور شدد پسندی کا سپل اوور اس وسط ایشیائی ریاست کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
’دوسرا افغانستان میں تاجک بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں، اور افغان تاجکوں کی کابل انتظامیہ میں نمائندگی نہ ہونا دوشنبے کے لیے یقیناً ناپسندیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔‘
وانگ جِن کے خیال میں ایس سی او اجلاس میں بین الاقوامی برادری سے افغان طالبان پر پابندیاں کم کرنے اور کابل کی عبوری حکومت کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی اپیل بھی سامنے آسکتی ہے۔
ایس سی او اجلاس سے متعلق دی ڈپلومیٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا ہے: ’ایس سی او افغان مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ یہ رکن ممالک کے موقف اور افغانستان کے بارے میں خدشات کے اظہار کے لیے بین الاقوامی آواز کی نمائندگی کرتا ہے، یہ ایک مثبت قدم ہے اور افغان مسئلے کو مربوط حل کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ چین ایس سی او اجلاس میں طالبان حکومت کی حمایت کر سکتا ہے، اور اس کی وجہ اس کے جنگ زدہ ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات ہیں۔
شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ چین اور افغانستان کے درمیان 2007 سے کابل سے 40 کلومیٹر دور واقع تانبے کے ذخائر سے متعلق ایک معاہدہ موجود ہے، جس پر حال ہی میں بیجنگ اور طالبان کے درمیان دوبارہ سے بار چیت شروع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اگرچہ چین کے خدشات ہیں لیکن وہ اپنی سرمایہ کاری کو ترجیح دیں گے اور طالبان کی حمایت کر سکتے ہیں۔‘
چین میں رینمن یونیورسٹی کے پروفیسر تیان وین لین کے خیال میں ایران بھی افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کا غور سے مشاہدہ کر رہا ہے، کیونکہ مذہبی شدت پسندی ان کی طرف بھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران ایس سی او سے اپنے روابط بڑھا کر خطے میں اپنی سکیورٹی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
ایس سی او کے رکن ممالک کو افغانستان اور افغان طالبان کے بارے میں مختلف بنیادی خدشات ہیں، جیسا کہ وسط ایشیائی ریاستوں - ازبکستان اور تاجکستان، نسلی اقلیتوں کے تحفظ پر زیادہ توجہ دیتی ہیں، جبکہ چین اور روس افغانستان میں دہشت گرد گروہوں اور انتہا پسندی کے خاتمے سے زیادہ فکرمند ہیں۔
اسی طرح پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے آنے کا خطرہ ہے، اور اسی لیے اسلام آباد افغانستان میں امن کے قیام کی بین الاقوامی کوششوں میں آگے رہا ہے۔
ایس سی او کیا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001 میں عمل میں آیا، اور اس کے ابتدائی چھ اراکین میں قزاقستان، کرغستان، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے، جو بعد میں 2017 میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے آٹھ ہو گئے۔
ایس سی او کے رکن ممالک کی تین اقسام ہیں، جن میں مندرجہ بالا آٹھ مستقل اراکین کے علاوہ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا کو آبزرورز کی حیثیت حاصل ہے، جبکہ آرمینیا، آزربائیجان اور نیپال وغیرہ ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں۔
تنظیم کے آج شروع ہونے والے اجلاس میں ایران کو ایس سی او کی مستقل رکنیت ملنے کا امکان ہے۔
کابل سے تعلق رکھنے والے افغان محقق احمد بلال خلیل کا کہنا تھا کہ ایس سی او بننے کی بنیادی وجہ افغانستان میں خانہ جنگی تھی۔
تاہم افغانستان ایس سی او کا فوکل پوائنٹ ہونے کے باوجود تنظیم گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران جنگ زدہ ملک سے متعلق مسائل اور تنازعات کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔
ایس سی او کو بین الاقوامی طور پر ایک گفتگو کا کلب ہی گردانا جاتا ہے، جہاں مسائل پر صرف بات چیت کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ایس سی او میں شامل ممالک کے اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈا بتائے جاتے ہیں۔
سٹریٹیجی کی پروفیسر ماریہ اومیلیچیوا لکھتی ہیں: افغانستان کی صورت حال کا کثیرالجہتی حل نکالنے کے لیے ایک ذریعہ ہونے کے باوجود، ایس سی او مختلف قومی مفادات اور اراکین کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے معذور ہے، تمام اراکین اپنی جغرافیائی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر بالاخر طالبان کو تسلیم کر لیں گے اگر وہ اپنے ملک میں مجود تنازعات پر قابو پانے کا وعدہ پورا کرتے ہیں۔‘