تقریباً ایک مہینے کے بعد اتوار کو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے الیکشن کمیشن کی ہدایات پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں نافذ دفعہ 144 ہٹا کر سیاسی امیدواروں کو جلسے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
نئے اضلاع سے انتخاب لڑنے والے اکثر امیدواروں کو جہاں 144 کے نفاذ پر شکایت تھی، وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے مسلسل اپوزیشن کو ہرانے میں مصروف ہے۔
دوسری جانب، انتخابی قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی امیدواروں کی پکڑ دھکڑ، تقرریاں اور تبادلے، ترقیاتی سکیموں کے اعلانات اور بعض علاقوں میں حکومت کی جانب سے بلا سود قرضے فراہم کرنا وہ تمام خلاف ورزیاں تھیں جن پر الیکشن کمیشن نے پچھلے دو ماہ میں بارہا حکومت کو خطوط کے ذریعے نہ صرف خبردار کیا بلکہ دفعہ 144 ہٹا کر الیکشن کے لیے حالات ہموار کرنے پر بھی اصرار کیا۔
سیاسی جماعتوں میں بطور خاص عوامی نیشنل پارٹی یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ ان کو ہرانے کے لیے ان پر حملے کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ ان کی جانوں کو لاحق خطرات کے باوجود انھیں تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ضلع باجوڑ کے حلقہ 100 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار گل افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ الیکشن کی باقاعدہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، یہاں تک کہ صرف ایک ہفتہ قبل ڈپٹی کمشنر عثمان محسود نے علاقے کے ملِک صاحبان کو بلا کر20، 20 ہزار روپے دیے۔
’یہ کس طرح کا قانون ہے اور کس طرح کی پاسداری ہے۔ سپریم کورٹ کدھر ہے اور انصاف کدھر ہے۔ ہمیں کسی قسم کی سکیورٹی نہیں دی جا رہی۔ میں اپنی ذمہ داری پر الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ 2018 میں حکومت پورے پاکستان کا الیکشن کروا سکتی تھی، لیکن صرف 16 نشستوں پر انتخاب اب اس کے لیے کیوں مشکل ہو گیا ہے؟‘
گل افضل کے اس الزام پر کہ باجوڑ میں انتظامیہ دھاندلی کر رہی ہے، ڈپٹی کمشنر عثمان محسود نے جواب دیا: ’یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ نہ صرف الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کو غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے بلکہ الزام بھی اس طرح کا لگایا جا رہا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے کہا: ’جس 20 ہزار کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ دراصل ’لونگی الاؤنس‘ ہے جو ہر سال قیام پاکستان کے وقتوں سے قبائلی اضلاع کے ملِک صاحبان کو دیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ان لوگوں کی جتنی خدمات ہیں اس کے بدلے حکومت ان کو یہ رقم دیتی ہے۔ یہ الاؤنس 2018 کے مالیاتی سال کے شروع میں دیا جانا تھا لیکن سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے یہ الاؤنس وفاق سے صوبے میں منتقل ہونے اور پھر ریلیز ہونے میں تاخیر ہو گئی۔ کوئی مجھے یہ بتائے کہ الیکشن کمیشن کی کون سی شِق میں لکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ملِک صاحبان کے ساتھ میٹنگ نہیں کرسکتا یا انہیں اُن کا الاؤنس نہیں دے سکتا۔‘
اگر وزیرستان کی بات کی جائے تو وہاں 10 جون کو لگنے والی دفعہ 144 پر سیاسی جماعتوں کو اعتراضات تھے۔ اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے کچھ آزاد امیدواروں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈننس (ایم پی او) کے سیکشن 3 کے تحت جیل میں ڈالا گیا تھا۔ جسے ان امیدواروں کے سپورٹرز نے ایم پی او کا غلط استعمال قرار دیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت سے ان امیدواروں کی رہائی کے علاوہ دفعہ 144 ہٹانے کے لیے بھی ہدایات جاری کردی تھیں۔
جنوبی وزیرستان کے حلقے 113 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نجیب اللہ محسود نے بتایا کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد جلسے جلوس نکالنے پر پابندی تھی لیکن باقی سرگرمیاں جاری تھیں اور ان میں تاحال کسی قسم کی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔
جنوبی وزیرستان سے ہی آزاد امیدوار ڈاکٹر سجاد نے بھی انتخابی مہم کو حوصلہ بخش قرار دیا اور کہا کہ انھیں سکیورٹی کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے انھیں 5 سکیورٹی اہلکار دینے کی پیشکش کی تھی تاہم انھوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا کہ انھیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں آزاد امیدوار اور کچھ سیاسی پارٹیوں کے امیدوار وزیرستان میں حالات انتخابی مہم کے لیے تسلی بخش قرار دے رہے ہیں، وہیں عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے امیدوار کچھ اور قصہ سنا رہے ہیں۔
اے این پی کے حلقے 114 جنوبی وزیرستان سے انتخاب لڑنے والے تاج وزیر نے بتایا کہ مہم تو ان کی جیسے تیسے چل رہی ہے، لیکن اصل مسئلہ سکیورٹی کا ہے، جو حکومت انھیں فراہم نہیں کر رہی۔
تاج وزیر نے بتایا: ’میں نے اسسٹنٹ کمشنر سے درخواست کی، الیکشن کمیشن کو خطوط لکھے کہ مجھے سکیورٹی فراہم کی جائے، لیکن آج تک حال یہ ہے کہ میں روزانہ خطرات کا سامنا کر رہا ہوں۔ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ میری زندگی کو خطرہ ہے اور میں احتیاط کروں تو پھر کیوں مجھے سکیورٹی نہیں دی جا رہی؟ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو تگڑی سکیورٹی دے دی گئی ہے اور تقریباً پانچ، چھ کلاشنکوف والوں اور پروٹوکول کے ساتھ اس کی انتخابی مہم چل رہی ہے۔‘
تاج وزیر نے بتایا کچھ دن قبل ان پر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹوا دی گئی تھی۔ اس کی وجہ ان کا پُرامن احتجاج تھا جو انھوں نے علی وزیر اور محسن داوڑ کا پروڈکشن آرڈر دلوانے کے لیے کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ضم شدہ اضلاع کے 16 حلقوں سے 297 امیدوار الیکشن لڑنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ عمومی نشستوں پر انتخاب لڑنے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں جبکہ تمام قبائلی اضلاع میں کُل رائے دہندگان کی تعداد 28 لاکھ ایک ہزار 834 ہے، جس میں مرد رائے دہندگان کی تعداد 16 لاکھ 71 ہزار 305 جبکہ خواتین کی تعداد 11 لاکھ 30 ہزار 529 ہے۔