سابق چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال 2011 میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، جس کے بعد سے وہ مختلف حیثیتوں میں ریاستِ پاکستان سے معاوضے میں کروڑوں روپے اور مراعات وصول کر چکے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج ہونے کی وجہ سے وہ قومی خزانے سے اب بھی ماہانہ لاکھوں روپے پینشن اور دوسری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے عدالت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے کے بعد سب سے زیادہ عرصہ (2011 سے 2022) چیئرمین تحقیقاتی کمیشن برائے لاپتہ افراد کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے، جبکہ تقریبا پانچ سال تک (اکتوبر 2017 سے جون 2022) قومی احتساب بیورو کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کو 2011 کے بعد ملنے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے پانچ اگست کو دریافت کیں۔
جس کے بعد وفاقی وزیر قانون نے اپنے جواب میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بحیثیت سربراہ لاپتہ افراد تحقیقاتی کمیشن کے ملنے والی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت کی۔ ان کے مطابق مذکورہ معلومات کا ان کی وزارت سے تعلق نہیں، اس لیے وہ دستیاب کرنا ممکن نہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اکتوبر 2017 میں چار سال کے لیے قومی احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، تاہم پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جانشین کی تعیناتی تک انہیں کام کرنے کا حق تفویض کیا تھا۔
مئی میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے اور طیبہ گل ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات کی سفارش کی تھی، جس کے لیے وفاقی حکومت ایک تحقیقاتی کمیشن بھی تشکیل دے چکی ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اس سال تین جون کو چیئرمین نیب اور 30 جون کو لاپتہ افراد کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے استعفے دیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ دور حکومت کے دوران جاوید اقبال بحیثیت چیئرمین نیب گرفتاری کے اختیارات کے ناجائز استعمال کے باعث تنقید کا نشانہ بنے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی بیشتر موقعوں پر نیب کے تیار کردہ کرپشن کے متعدد مقدمات کے ٹرائلز میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ماضی میں جسٹس (ر) جاوید اقبال ایبٹ آباد تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ادائیگیاں بحثیت چیئرمین نیب
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سینیٹ کو دی گئی تفصیلات کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال بحیثیت چیئرمین نیب نے مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے سات کروڑ روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میں حاصل کیے۔
سابق چیئرمین نیب کو ملنے والے ماہانہ تنخواہ میں بارہ لاکھ 39 ہزار روپے بنیادی تنخواہ کی مد میں ادا کیے جاتے رہے، جبکہ چھ ہزار روپے ٹیلیفون اور 68 ہزار روپے گھر کے کرائے کی مد میں دیے گئے۔
وفاقی وزیر نے ایوان بالا کو بتایا کہ چیئرمین نیب نے اپنی تعیناتی کے عرصے کے دوران میڈیکل کے الاوٗنس کی مد میں کوئی کلیم جمع نہیں کروایا۔
ادائیگیاں بحیثیت ریٹائرڈ جج سپریم کورٹ
وفاقی وزیر قانون نے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کے ججوں کو ملنے والی پینشن اور دوسری مراعات سے متعلق سرکاری دستاویزات لف کیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال اس وقت قومی خزانے سے ماہانہ کتنی رقم وصول کر رہے ہیں۔
جولائی 2011 کو سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے ہر جج کو ملنے والی پینشن اور مراعات کا ذکر 1997 کے صدارتی حکم نمبر دو سے لف (بی) دستاویزات میں موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹ میں پیش کی جانے والی ان دستاویزات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کو ماہانہ چار لاکھ 23 ہزار 414 روپے ماہانہ تنخواہ کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج کے ریٹائر ہونے کی صورت میں انہیں سرونگ جج کی بنیادی تنخواہ کا 70 پینشن کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، جبکہ نوکری کے ہر سال کے لیے پانچ فیصد اضافی بھی دیے جاتے ہیں۔
عدالت عظمی کے ریٹائرڈ جج کو پینشن کے علاوہ مندرجہ ذیل مراعات بھی دی جاتی ہیں۔
1۔ ایک ڈرائیور اور ایک اردلی، یا ان کی تنخواہوں کے برابر پنشن میں ادائیگی
2۔ ہر مینے تین ہزار ٹیلیفون کی لوکل کالز
3۔ ماہوار دو ہزار بجلی کے یونٹس، 25 مکعب میٹر قدرتی گیس اور بلا معاوضہ پانی
4۔ ہر مہینے تین سو لیٹر پیٹرول
5۔ رہائش گاہ پر 24 گھنٹے گارڈ کی سہولت
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان کو ملنے والی پینشن اور دوسری مراعات کو ہر قسم کے ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جبکہ وہ سبکدوشی پر ان کے زیر استعمال گاڑی کم قیمت پر خرید بھی سکتے ہیں۔