ہالی وڈ کی فلم Forrest Gump کا ایک ڈائیلاگ تھا کہ ’زندگی چاکلیٹ کے ڈبے کی مانند ہے کیونکہ آپ کبھی نہیں جان پاتے کہ آپ کیا حاصل کرنے جا رہے ہیں۔‘
اب اس فلم کا ایک بولی وڈ ری میک ’لال سنگھ چڈھا‘ اس کے مسلم اداکارعامر خان کے برسوں پرانے ایک بیان کی وجہ سے بائیکاٹ کی دھمکیوں کی زد میں ہے۔
بائیکاٹ کی یہ مہم بھارت میں اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی تازہ ترین مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح بولی وڈ کے مسلمان سپر سٹارز تک ہندو قوم پرست وزیر اعظم مودی کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف جاری اس دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں۔
’لال سنگھ چڈھا‘ 2022 کی بولی وڈ کی سب سے بڑی فلموں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔
اس کی بڑی وجہ اس کے مرکزی سٹار 57 سالہ عامر خان ہیں جو 2009 میں ’تھری ایڈیٹس‘ اور 2016 میں ’دنگل‘ جیسی ماضی کی بلاک بسٹرز کے ساتھ بھارتی فلم انڈسٹری کے سب سے زیادہ معروف اداکاروں میں سے ایک ہیں۔
لیکن ’لال سنگھ چڈھا‘ کی 11 اگست کی ریلیز سے پہلے انٹرنیٹ عامر خان کے 2015 میں دیے گئے ایک انٹرویو کے کلپس سے بھرا پڑا ہے جس میں انہوں نے مودی کے بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور خوف کے احساس کا اظہار کیا تھا۔
عامر خان نے کہا تھا: ’میری اہلیہ اپنے بچوں کے لیے خوف زدہ ہیں۔ وہ اس بات سے ڈرتی ہیں کہ ہمارے اردگرد کا ماحول کیا سے کیا ہو گا۔ وہ ہر روز اخبارات پڑھنے ڈرتی ہیں۔‘
ٹوئٹر پر دو لاکھ سے زیادہ پوسٹس ’بائیکاٹ لال سنگھ چڈھا‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں جن میں زیادہ تعداد مودی کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کی ہے۔
ایک ٹویٹ میں کہا گیا: ’عامر خان نے دو ہندو خواتین سے شادی کی، پھر بھی اپنے بچوں کا نام جنید، آزاد اور ایرا رکھا۔ لال سنگھ چڈھا کا بائیکاٹ کرنے کے لیے یہی کافی وجوہات ہیں جو بنیادی طور پر بولی وڈ کے ’لو جہاد‘ کلب کی پروڈکشن ہے۔
مسلمان مردوں کی ہندو خواتین سے شادی کو بھارت کے دائیں بازو کے گروپ ’لو جہاد‘ کا نام دیتے ہیں۔
مسٹر پرفیکشنسٹ کے نام سے مشہور عامر خان کو بولی وڈ کے گانے اور رقص کے روایتی انداز سے ہٹ کر سماجی اور ثقافتی مسائل پر فلمیں بنانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے ایک ٹی وی چیٹ شو کی میزبانی بھی کی جس میں ریپ، گھریلو تشدد اور بدعنوانی جیسے دل چسپ موضوعات پر گفتگو کی گئی۔
بائیکاٹ کی مہم کے بعد عامر خان کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ایک بیان دینا پڑا۔
رواں ہفتے انہوں نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے دکھ ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ایسا شخص ہوں جو بھارت کو پسند نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہے۔ پلیز میری فلم کا بائیکاٹ مت کریں، پلیز میری فلم دیکھیں۔‘
ان کے اس بیان کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم میگا سٹار اب جو دباؤ محسوس کررہے ہیں وہ بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، پسماندگی اور اقلیت کے ساتھ برتاؤ کا آئینہ دار ہے۔
ایک بھارتی تبصرہ نگار نے خود نشانہ بننے کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی طرف سے ہی عامر خان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جڑیں انتہا پسند ہندو عسکری تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے منسلک ہیں جو ’ہندوتوا‘ کی حمایت اور بھارت کو صرف ہندووں کی ریاست بنانا چاہتی ہے۔
گائے کے تحفظ کے نام پر ہندو ہجوم کی جانب سے درجنوں مسلمانوں کے قتل عام اور دیگر نفرت انگیز جرائم نے 20 مسلم آبادی میں خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا غلط معلومات سے بھرا ہوا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی جلد ہی ہندوؤں سے بڑھ جائے گی یا یہ کہ اقلیتی مسلم پاکستان کی حمایت یافتہ ایک غدار قوم ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ 2014 میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بولی وڈ میں بھی حکومتی بیانیے کے مطابق آہستہ آہستہ قوم پرستی اور ہندو توا کی حمایت میں فلمیں بنانے کا رجحان بڑھا ہے۔
2019 مودی کی زندگی پر ’پی ایم نریندر مودی‘ بنائی گئی۔ فوجی تھیم پر مبنی فلموں کا ایک حالیہ سلسلہ بھی جاری ہے جو بھارت کے باہر اور اندرونی ملک دشمنوں کے خلاف ہندو فوجیوں کی بہادری کی قوم پرستانہ، تشدد سے بھری کہانیاں ہیں۔
اس سال ’دی کشمیر فائلز‘کی ریلیز کے بعد مسلمانوں کے انتقامی قتل کا مطالبہ زور پکڑ گیا تھا۔
فلمی نقاد اور مصنف انا ایم ایم ویٹیکاڈ نے کہا کہ ’بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو اکثریتی برادری کے تابع کرنے کے طریقوں میں ان اقلیتوں کو شیطانی ظاہر کرنا اور مسلسل ان کی حب الوطنی کا ثبوت مانگنا شامل ہے۔
ان کے مطابق لیکن اس رجحان کی تبدیلی کی توقع بہت کم ہے۔ ’بھارت کا المیہ یہ ہے کہ بولی وڈ بے حس، موقع پرست یا خوف کے مارے افراد سے بھر چکا ہے۔‘