قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا ساتواں اور اہم دور دارالحکومت دوحہ کے ’ڈپلومیٹک کلب‘ میں شروع تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو مکمل خاموشی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے بارے میں دنیا اور بالخصوص خطے میں کتنی زیادہ پریشانی ہے لیکن دوحہ میں چھائی خاموشی دیکھ کر شاید ہی کسی کو لگتا ہو کہ یہاں اتنے اہم مسئلے پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔
مذاکرات کی کوریج کے لیے یہاں عموما صحافی بھی نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی بی بی سی پشتو والے اپنے نمائندے کو رپورٹنگ کے لیے بھیجتے ہیں لیکن انہیں بھی اکثرخبریں نہیں مل پاتیں اور بس ’ذرائع‘ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ قطر میں حکومت کی اجازت کے بغیر رپورٹنگ مشکل ہے۔
سخت گرمی کی وجہ سے مذاکرات کی کوریج کے لیے انتظار بھی بہت مشکل کام ہے۔ اگر ایک آدھ صحافی کوریج کے لیے آ جاتا ہے تو وہاں ایک قریبی مسجد میں انتظار کرنا پڑتا ہے جہاں ایرکنڈیشن کی سہولت موجود ہے۔
قطر میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مذاکرات کی جگہ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور گزشتہ چھ مذاکراتی ادوار دوحہ کے مختلف مقامات پر ہوئے تھے جن میں وزارت خارجہ بھی شامل ہے۔
مذاکرات اکثر ان علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں میڈیا یا کسی اور کے لیے جانا آسان نہیں ہوتا۔ ویسے بھی امریکی عہدیدار اور طالبان مذاکرات سے متعلق آن دی ریکارڈ کچھ بولنے سے گریز کرتے ہیں۔ افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین پرامید نظر آئے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ عید الضحی سے پہلے ہوسکتا ہے۔
امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ چار معاملات میں سے تین پر تقریباً مفاہمت ہوچکی ہے اور ایک پر پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن اختلافات ابھی باقی ہیں۔ امکان ہے کہ مذاکرات کے اس مرحلے میں فریقین کا مذکورہ مسئلے پر بھی کسی نتیجے پر پہنچنے کا قوی امکان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب خلیل زاد سے دوحہ میں پوچھا گیا کہ طالبان کا دعوی ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل انخلا پر متفق ہوچکا ہے تو ان کا کہنا تھا ’امریکہ ساری عمر افغانستان میں رہنے کے لیے نہیں آیا اور ہم فوجی لحاظ سے امریکہ کو واپسی پر آمادہ کرلیں گے لیکن اس وقت جب افغانستان یہ یقین دہانی کرائے کہ افغان سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔‘
طالبان اور امریکی عہدیدار مذاکرات سے متعلق ’آن دی ریکارڈ‘ بات تو نہیں کرتے لیکن قطر میں پانچ دنوں کے دوران ملاقاتوں میں معلوم ہوا کہ دونوں میں امریکی اور نیٹو اتحادی افواج کے انخلا سے متعلق اختلافات ہیں۔ طالبان شاید غیر ملکی افواج کا جلدی انخلا چاہتے ہیں لیکن امریکہ ذرا زیادہ وقت کا مطالبہ کرتا ہے۔
سہیل شاہین سے دوحہ میں ایک تفصیلی ملاقات ہوئی مگر انہوں نےامریکہ کے ساتھ طالبان کے جاری مذاکرات سے متعلق کوئی بھی تفصیل دینے سے انکار کیا۔ اس کے باوجود وہ مذاکرات کے مثبت نتائج کے بارے بہت پرامید تھے۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے عید سے پہلے دونوں فریق کسی معاہدے کے لیے متفق ہو جائیں۔ اس سے پہلے زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کا اعادہ کیا کہ امریکہ یکم ستمبر سے پہلے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کا خواہاں ہے۔ خلیل زاد کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے افغانستان میں امن صدارتی انتخابات سے زیادہ اہم ترجیح ہے۔ مذاکرات کے ساتویں دور میں وقفہ کیا گیا ہے تاکہ دونوں فریق اپنی قیادت کو اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کریں۔
قطر میں مغربی سفارتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ خلیل زاد افغانستان سے متعلق ایک سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ گئے ہیں جس میں روس، چین اور امریکہ کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ پاکستان کو شامل کیا گیا ہے۔ اجلاس میں خلیل زاد کے علاوہ تینوں ممالک کے وزارت خارجہ کے حکام اور افغانستان کے خصوصی نمائندوں نے شرکت کی ہے۔ یہ اجلاس ایک اہم موقع پر منعقد ہوا ہے جب افغانستان میں امن مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ مذاکرات کے ساتویں دور میں وقفہ کیا گیا ہے اور قطر میں ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات جلد شروع ہوں گے تاہم اس کے لیے تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔