انیقہ بانو نے گلگت بلتستان میں سماعت سے محروم بچوں کو تعلیم کے ذریعے معاشرے میں شناخت مہیا کرنے کے لیے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی ہے، جس کی وجہ تسمیہ ان کی اپنی بیٹی ہیں۔
اس سکول کی پہلی طالبہ نرجس خاتون ہیں جو انیقہ بانو کی پہلی اولاد ہیں۔
نرجس خاتون نے اشاروں کی زبان میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کی عمر 16 سال ہے اور وہ نویں جماعت کی طالبہ ہیں اور بڑی ہو کر آرٹسٹ بننا چاہتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ سب میرے والدین کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، ورنہ معاشرے میں ہم جیسے بچوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ آج ہمیں موقع ملا ہے کہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔‘
انیقہ بانو کو نرجس کی پیدائش کے پانچ، چھ ماہ بعد احساس ہو گیا کہ ان کی بیٹی قوت سماعت سے محروم ہیں۔ یہ ان کی آزمائش اور اس سے جڑی جدوجہد کا نقطہ آغاز تھا۔
انہوں نے بتایا: ’بیٹی کا قوت سماعت سے محروم ہونا قدرت کی طرف سے ہمارے لیے آزمائش تھی لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل یہ تھی کہ معاشرے کی طرف سے ایسے بچوں کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں یا کہیں پر ان کے لیے روزگار کا موقع ہو۔‘
انیقہ نے خصوصی افراد کے حوالے سے اپنے علاقے میں پائے جانے والے عمومی رویوں پر بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا: ’ان بچوں کو اپنے نام سے بھی نہیں پکارا جاتا تھا۔ ان کو نام کی شناخت بھی میسر نہیں تھی۔ ان کو فلاں کا غوٹ یعنی گونگا اور فلاں کا غونمو یعنی بہرا کہہ کر پکارا جاتا تھا، یعنی ان کو کمتر سمجھتے تھے۔‘
انیقہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا کہ انہیں بھی معاشرے میں عام انسانوں جیسا درجہ اور رتبہ دلوایا جائے۔
وہ اپنی بیٹی کے علاج اور تعلیم کے لیے کراچی میں قائم خصوصی سکول پہنچیں تو انہیں اپنے علاقے میں ایسی ہی درسگاہ بنانے کا احساس ہوا۔
انیقہ کہتی ہیں: ’جب میں نے کراچی میں سماعت سے محروم بچوں کو سائن لینگوئج میں ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے کھیلتے بات کرتے دیکھا تو مجھے شدید احساس ہوا کہ ہمارے علاقے کے بچے ایسی سہولت سے محروم کیوں ہیں؟‘
اس زمانے میں گلگت بلتستان کے ایک سماعت اور گویائی سے محروم جوڑے کی تصویر فیس بک پر بہت وائرل ہو رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انیقہ نے اس تصویر کے ساتھ کراچی کے سکول میں زیر تعلیم بچوں کی تصویر لگا کر فیس بک پر لکھا: ’آپ کو یہاں سے یہاں تک پہنچانا میرا مشن ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آغاز میں انہوں نے چند تنظیموں کو درخواست دی کہ وہ گلگت بلتستان میں سماعت سے محروم بچوں کے لیے سکول بنائیں۔ اس پر دو غیر ملکی افراد یہاں پہنچ بھی گئے لیکن انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے یہاں کام کرنے سے معذرت کر لی۔
اس کے بعد انیقہ اور ان کے شوہر نے خود کو اس کام کے لیے وقف کرنے کا تہیہ کیا۔
انیقہ کہتی ہیں: ’ہمارا دو تین کمروں کا ایک گھر تھا۔ اس گھر کا ایک کمرا ہم نے مختص کر دیا۔ صبح میں ایک سکول میں ملازمت کرتی تھی اور شام میں دو سے چھ بجے تک ہم نے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔‘
انیقہ کے لیے اس کے بعد بھی پریشانیوں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ اب انہیں سماعت سے محروم بچوں کا ڈیٹا تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا، جو بقول ان کے ’مربوط شکل میں موجود ہی نہیں تھا۔‘
انیقہ کے مطابق: ’آغاز میں ہم نے محلے کی سطح پر پوچھ کر ڈیٹا اکٹھا کیا لیکن بعد میں احساس پروگرام کے آغاز سے اور نادرا کے بے فارم کی وجہ سے ڈیٹا اکٹھا کرنے میں آسانی ہو گئی۔‘
فی الوقت انیقہ کے سکول میں 30 لڑکے اور 40 لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔
انیقہ نے بتایا: ’ہماری سب سے سینیئر کلاس نویں کی ہے جو آئندہ سال بورڈ کا امتحان دے گی۔‘